سنن نسائي
كتاب البيوع -- کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
95. بَابُ : الرَّجُلِ يَبْتَاعُ الْبَيْعَ فَيُفْلِسُ وَيُوجَدُ الْمَتَاعُ بِعَيْنِهِ
باب: سامان خریدنے کے بعد قیمت ادا کرنے سے پہلے آدمی مفلس ہو جائے اور وہ چیز اس کے پاس جوں کی توں موجود ہو تو اس کے حکم کا بیان۔
حدیث نمبر: 4682
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ وَعَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ , عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الْأَشَجِّ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: أُصِيبَ رَجُلٌ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ثِمَارٍ ابْتَاعَهَا وَكَثُرَ دَيْنُهُ، قالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" تَصَدَّقُوا عَلَيْهِ"، فَتَصَدَّقُوا عَلَيْهِ وَلَمْ يَبْلُغْ ذَلِكَ وَفَاءَ دَيْنِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" خُذُوا مَا وَجَدْتُمْ وَلَيْسَ لَكُمْ إِلَّا ذَلِكَ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص کے پھلوں پر جو اس نے خریدے تھے آفت آ گئی اور اس کا قرض بہت زیادہ ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس پر صدقہ کرو، چنانچہ لوگوں نے اس پر صدقہ کیا، اس کی مقدار اتنی نہ ہو سکی کہ اس کا قرض پورا ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو تمہیں ملے لے لو، اس کے علاوہ تمہارے لیے کچھ نہیں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «انطر حدیث رقم: 4534 (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: جب حاکم موجودہ مال کو قرض خواہوں کے مابین بقدر حصہ تقسیم کر دے پھر بھی اس شخص کے ذمہ قرض خواہوں کا قرض باقی رہ جائے تو ایسی صورت میں قرض خواہ اسے تنگ کرنے، قید کرنے اور قرض کی ادائیگی پر مزید اصرار کرنے کے بجائے اسے مال کی فراہمی تک مہلت دے۔ حدیث کا مفہوم یہی ہے اور قرآن کی اس آیت «وإن کان ذوعسرۃ فنظرۃ إلی میسرۃ» کے مطابق بھی ہے کیونکہ کسی کے مفلس ہو جانے سے قرض خواہوں کے حقوق ضائع نہیں ہوتے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4682  
´سامان خریدنے کے بعد قیمت ادا کرنے سے پہلے آدمی مفلس ہو جائے اور وہ چیز اس کے پاس جوں کی توں موجود ہو تو اس کے حکم کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص کے پھلوں پر جو اس نے خریدے تھے آفت آ گئی اور اس کا قرض بہت زیادہ ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس پر صدقہ کرو، چنانچہ لوگوں نے اس پر صدقہ کیا، اس کی مقدار اتنی نہ ہو سکی کہ اس کا قرض پورا ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو تمہیں ملے لے [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4682]
اردو حاشہ:
کسی کے مفلس ہونے کا فیصلہ حکومت کرتی ہے۔ افلاس کے احکام اس وقت لاگو ہوں گے جب حکومنت اس کے افلاس کا باقاعدہ اعلان کر دے۔ کوئی شخص بذات خود اپنے آپ کو مفلس قرار نہیں دے سکتا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4682   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2356  
´مفلس آدمی کو دیوالیہ قرار دے کر اس کا مال بیچ کر قرض خواہوں کو ادائیگی کرنا۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ایک شخص کو اس کے خریدے ہوئے پھلوں میں گھاٹا ہوا، اور وہ بہت زیادہ مقروض ہو گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا: تم لوگ اسے صدقہ دو چنانچہ لوگوں نے اسے صدقہ دیا، لیکن اس سے اس کا قرض پورا ادا نہ ہو سکا، بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو مل گیا وہ لے لو، اس کے علاوہ تمہارے لیے کچھ نہیں ہے یعنی قرض خواہوں کے لیے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2356]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جس شخص پر اتنا زیادہ قرض ہو جائے کہ وہ ادا کرنے سے قاصر ہو تو صدقات سے اس کی مدد کرنی چاہیے۔
ایسے شخص کو زکاۃ بھی دی جا سکتی ہے۔

(2)
اگر قرض زیادہ ہو اور دوسروں کی امداد سے بھی اتنی رقم جمع نہ ہو کہ قرض ادا ہو سکے تو جتنا کچھ موجود ہو وہی قرض خواہوں میں ان کے قرضوں کی نسبت سے تقسیم کر دیا جائے مثلاً:
کسی کے پاس کل قرضوں سے نصف رقم ہو تو ہر قرض خواہ کو اس کے قرض سے نصف رقم دے دی جائے۔

(3)
ممکن حد تک وصول ہو جانے کے بعد دیوالیہ سے مزید مطالبہ نہیں کیا جا سکتا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2356   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 655  
´قرض داروں اور دیگر لوگوں میں سے کس کس کے لیے زکاۃ حلال ہے؟`
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص ۱؎ کے پھلوں میں جو اس نے خریدے تھے، کسی آفت کی وجہ سے جو اسے لاحق ہوئی نقصان ہو گیا اور اس پر قرض زیادہ ہو گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے صدقہ دو چنانچہ لوگوں نے اسے صدقہ دیا، مگر وہ اس کے قرض کی مقدار کو نہ پہنچا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قرض خواہوں سے فرمایا: جتنا مل رہا ہے لے لو، اس کے علاوہ تمہارے لیے کچھ نہیں۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الزكاة/حدیث: 655]
اردو حاشہ:
1؎:
ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 655   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3469  
´کھیت یا باغ پر کوئی آفت آ جائے تو خریدار کے نقصان کی تلافی ہونی چاہئے۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک شخص کے پھلوں پر جسے اس نے خرید رکھا تھا کوئی آفت آ گئی چنانچہ اس پر بہت سارا قرض ہو گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے خیرات دو تو لوگوں نے اسے خیرات دی، لیکن خیرات اتنی اکٹھا نہ ہوئی کہ جس سے اس کے تمام قرض کی ادائیگی ہو جاتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس کے قرض خواہوں سے) فرمایا: جو پا گئے وہ لے لو، اس کے علاوہ اب کچھ اور دینا لینا نہیں ہے ۱؎ (یہ گویا مصیبت میں تمہاری طرف سے اس کے ساتھ رعایت ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3469]
فوائد ومسائل:

اسلامی معاشرے کی تنظیم اس طرح کی جاتی ہے۔
کہ صدقات کو عام اور سود کو ختم کیا جائے۔
بخلاف لادین اور ملحد معاشرے کے اس میں سود کو بڑھایا جاتا ہے۔
اور صدقات کا باقاعدہ کوئی نظام نہیں ہوتا۔


جو شخص قرض میں دب جائےاس کے ساتھ خواص تعاون کرنا واجب ہے۔


مفلس اور دیوالیہ ہوجانے والے سے اس کے قرض خواہ اپنے قرضے کی نسبت سے حاضرہ موجودہ مال میں حصہ لے سکیں گے۔
باقی کا وہ مطالبہ نہیں کرسکتے۔
باغ یا کھیت کی بیع جب شرعی اصولوں کے تحت ہوئی ہو تو نقصان کی تلافی کرنا مستحب ہے۔
واجب نہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3469