سنن نسائي
كتاب القسامة والقود والديات -- کتاب: قسامہ، قصاص اور دیت کے احکام و مسائل
5. بَابُ : الْقَوَدِ
باب: قصاص کا بیان۔
حدیث نمبر: 4725
أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُرَّةَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثٍ: النَّفْسُ بِالنَّفْسِ، وَالثَّيِّبُ الزَّانِي، وَالتَّارِكُ دِينَهُ الْمُفَارِقُ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مسلمان کا خون بہانا جائز تین صورتوں کے علاوہ جائز نہیں ہے: جان کے بدلے جان ۱؎، جس کا نکاح ہو چکا ہو وہ زنا کرے، جو دین چھوڑ دے اور اس سے پھر جائے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 4021 (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: اسی لفظ سے قصاص کا حکم ثابت ہوتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ جان ناحق لی گئی ہو۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4725  
´قصاص کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مسلمان کا خون بہانا جائز تین صورتوں کے علاوہ جائز نہیں ہے: جان کے بدلے جان ۱؎، جس کا نکاح ہو چکا ہو وہ زنا کرے، جو دین چھوڑ دے اور اس سے پھر جائے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4725]
اردو حاشہ:
(1) اسلام نے قصاص مشروع قرار دیا ہے، البتہ ورثاء مقتول معافی پر راضی ہو جائیں تو دیت ادا کرنی ہوگی، لیکن صرف یہ قتل عمد میں ہوتا ہے، قتل خطا میں نہیں۔ قتل خطا یہ ہے کہ گولی تو چلائی گئی کسی جانور پر مگر اچانک کوئی شخص آگے آ گیا اور گولی اسے لگ گئی یا یہ سمجھ کر گولی چلائی گئی کہ یہ کوئی جانور ہے، گولی معلوم ہوا کہ یہ تو انسان ہے۔ ایسی صورت میں قصاص نہیں ہوگا، البتہ دیت دینا ضروری ہے کیونکہ مسلمانوں کا خون رائیگاں نہیں ہو سکتا۔
(2) قصاص کا ڈر قاتل کو قتل سے روکتا ہے، نیز قصاص لینے سے ناحق خون ریزی سے بچت ہوتی ہے۔ لڑائی نہیں پھیلتی۔
(3) قصاص کا عام قانون یہی ہے جو حدیث مبارکہ میں بیان کیا گیا ہے، تاہم اگر کوئی شخص کسی پر ناجائز طور پر قاتلہ حملے کرے اور پھر دفاع میں حملہ آور مارا جائے تو ایسے شخص سے بھی قصاص نہیں لیا جائے گا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4725   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2534  
´تین صورتوں کے علاوہ مسلمان کا قتل حرام اور ناجائز ہے۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مسلمان کا جو صرف اللہ کے معبود برحق ہونے، اور میرے اللہ کا رسول ہونے کی گواہی دیتا ہو، خون کرنا حلال نہیں، البتہ تین باتوں میں سے کوئی ایک بات ہو تو حلال ہے: اگر اس نے کسی کی جان ناحق لی ہو، یا شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کا مرتکب ہوا ہو، یا اپنے دین (اسلام) کو چھوڑ کر مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہو گیا ہو (یعنی مرتد ہو گیا ہو)، (تو ان تین صورتوں میں اس کا خون حلال ہے) ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الحدود/حدیث: 2534]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
   مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اسلام ترک کرکے مسلمانوں سے خارج ہو جاتا ہے اور کوئی دوسرا مذہب اختیار کر کے کافروں میں شمار ہوجاتا ہے اس سے مسلمانوں کی کوئی تنظیم مراد نہیں ہے جو دین کی خدمت تبلیغ یا جہاد وغیرہ کے نقطہ نظر سے قائم کی گئی اور ہر مسلمان اس میں رضا کارانہ طور پر داخل ہوسکتا ہے۔
ایک مسلمان جس طرح اس قسم کسی تنظیم میں شامل ہونے سے پہلے مسلمان ہوتا ہے اسے خارج ہونے کے بعد بھی مسلمان ہی رہتا ہے۔
ایسے مسلمان کو باغی بھی قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ یہ تنظیمیں اسلامی سلطنت کے حکم میں نہیں جس سے بغاوت کی سزاموت ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2534   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1402  
´ان تین اسباب میں سے کسی ایک کے پائے جانے پر ہی کسی مسلم کا خون حلال ہوتا ہے۔`
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مسلمان شخص کا خون جو اس بات کی گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں، حلال نہیں سوائے تین باتوں میں سے کسی ایک کے: یا تو وہ شادی شدہ زانی ہو، یا جان کو جان کے بدلے مارا جائے، یا وہ اپنا دین چھوڑ کر جماعت مسلمین سے الگ ہو گیا ہو ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الديات/حدیث: 1402]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
دیگر مذاہب کے مقابلے میں اسلام نے انسانی جانوں کی حفاظت نیز ان کی بقا اور امن و امان کا سب سے زیادہ پاس ولحاظ رکھا ہے،
یہی وجہ ہے کہ شرک کے بعد کسی نفس کا قتل اسلام میں عظیم ترگناہ ہے،
اسی لیے شارع حکیم نے کسی مسلمان کا قتل تین چیزوں میں سے کسی ایک کے پائے جانے ہی کی صورت میں حلال کیا ہے:

(1)
کسی آزاد شخص کا شادی شدہ ہوکر زنا کرنا،

(2)
جان بوجھ کر کسی معصوم انسان کو ظلم وزیادتی کے ساتھ قتل کرنا
(3)
اسلام سے پھرجانا کیوں کہ ایسے شخص کا دل خیر سے اس طرح خالی ہوجاتاہے کہ حق بات قبول کرنے کی اس میں صلاحیت باقی نہیں رہتی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1402