صحيح البخاري
كِتَاب الْهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا -- کتاب: ہبہ کےمسائل فضیلت اور ترغیب کا بیان
26. بَابُ إِذَا وَهَبَ بَعِيرًا لِرَجُلٍ وَهْوَ رَاكِبُهُ، فَهُوَ جَائِزٌ:
باب: اگر کوئی شخص اونٹ پر سوار ہو اور دوسرا شخص وہ اونٹ اس کو ہبہ کر دے تو درست ہے۔
حدیث نمبر: 2611
وَقَالَ الْحُمَيْدِيُّ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا عَمْرٌو، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، وَكُنْتُ عَلَى بَكْرٍ صَعْبٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعُمَرَ: بِعْنِيهِ، فَابْتَاعَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هُوَ لَكَ يَا عَبْدَ اللَّهِ".
اور حمیدی نے بیان کیا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا کہ ہم سے عمرو نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے اور میں ایک سرکش اونٹ پر سوار تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ یہ اونٹ مجھے بیچ دے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے خرید لیا اور پھر فرمایا عبداللہ! تو یہ اونٹ لے جا (میں نے یہ تجھ کو بخش دیا)۔
  حافظ ابويحييٰ نورپوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2115  
´اولاد کو ہبہ کرنا`
«. . . قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لِعُمَرَ: بِعْنِيهِ، قَالَ: هُوَ لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: بِعْنِيهِ، فَبَاعَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هُوَ لَكَ يَاعَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، تَصْنَعُ بِهِ مَا شِئْتَ . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ یہ اونٹ مجھے بیچ ڈال۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ! یہ تو آپ ہی کا ہے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں مجھے یہ اونٹ دیدے۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ اونٹ بیچ ڈالا۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عبداللہ بن عمر! اب یہ اونٹ تیرا ہو گیا جس طرح تو چاہے اسے استعمال کر . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْبُيُوعِ: 2115]

فوائد و مسائل:
اس حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ کے باب میں بھی ذکر کیا ہے تو شارح بخاری حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (773-852ھ) لکھتے ہیں:
«وقال ابن بطال: مناسبة حديث ابن عمر للترجمة انه صلى الله عليه وسلم لو سأل عمر أن يهب البعير لابنه عبد الله لبادر إلى ذلك، لكنه لو فعل لم يكن عدلا بين بني عمر، فلذلك اشتراه صلى الله عليه وسلم منه، ثم وهبه لعبد الله، قال المهلب: وفي ذلك دلالة على أنه لا تلزم المعدلة فيما يهبه غير الاب لولد غيره وهو كما قال .»
علامہ ابن بطال رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما والی روایت کی ترجمۃ الباب سے یہ مطابقت ہے کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو فرماتے کہ اپنے بیٹے عبداللہ کو اونٹ ہبہ کریں، تو وہ فوراً تعمیل کرتے ہیں، لیکن ایسا کرنے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے بیٹوں کے مابین انصاف نہیں ہونا تھا۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ خرید کر سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو ہبہ کر دیا۔ مہلب کہتے ہیں: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر باپ کے علاوہ کوئی شخص کسی دوسرے کی اولاد کو ہبہ کرے، تو اس میں مساوات ضروری نہیں ہے۔ (حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:) ان کی یہ بات بالکل درست ہے۔ [فتح الباري شرح صحيح البخاري: 5/ 215]

خوب یاد رہے کہ اگر کسی انسان نے اپنی زندگی میں اپنے کسی بیٹے یا کچھ بیٹوں کو اپنی جائیداد میں حصہ دیا اور ان کے نام لگوا کر باقیوں کو محروم کر دیا، تو ایسا ہبہ ناجائز ہے، مذکورہ بالا احادیث کی روشنی میں ایسے ہبہ کو واپس لوٹانا واجب ہے۔
   ماہنامہ السنہ جہلم، شمارہ 72، حدیث/صفحہ نمبر: 23   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2611  
2611. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ہم ایک سفر میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ تھے اور میں ایک سرکش اونٹ پر سوار تھا۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت عمر ؓ سے فرمایا: تم اسے میرے ہاتھ فروخت کردو۔ پھر اسے خریدکر نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اے عبداللہ!یہ تمہارا (اونٹ) ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2611]
حدیث حاشیہ:
حضرت عبداللہ ؓ اونٹ پر سوار تھے۔
آنحضرت ﷺ نے اسی حالت میں اسے خرید لیا اور پھر از راہ نوازش عبداللہ ؓ کو اسی حالت میں اسے ہبہ فرمادیا، اسی سے ترجمۃ الباب ثابت ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2611   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2611  
2611. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ہم ایک سفر میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ تھے اور میں ایک سرکش اونٹ پر سوار تھا۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت عمر ؓ سے فرمایا: تم اسے میرے ہاتھ فروخت کردو۔ پھر اسے خریدکر نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اے عبداللہ!یہ تمہارا (اونٹ) ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2611]
حدیث حاشیہ:
(1)
اگر کوئی دوسرے شخص کو اونٹ ہبہ کرے اور جسے ہبہ کیا گیا ہے وہ خود اس پر سوار ہو تو یہ ہبہ جائز ہے۔
احناف کا دعویٰ ہے کہ جب کوئی چیز قبضے میں نہ ہو اسے فروخت یا ہبہ کرنا جائز نہیں۔
امام بخاری ؒ فرماتے ہیں:
قبضے کے بغیر بھی اسے ہبہ کیا جا سکتا ہے جبکہ اس کے متعلق قانونی حق ملکیت حاصل ہو جائے۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اونٹ پر سوار تھے، رسول اللہ ﷺ نے اسی حالت میں اسے خریدا پھر ازراہ نوازش انہیں ہبہ کر دیا، اس پر عملاً قبضہ نہیں بلکہ اس شخص اور ہبہ کیے ہوئے اونٹ کے درمیان ملکیت سے دستبرداری قبضہ ہے۔
(2)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قیمت ادا کرنے سے پہلے خریدی ہوئی چیز میں تصرف کرنا جائز ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2611