صحيح البخاري
كِتَاب الْهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا -- کتاب: ہبہ کےمسائل فضیلت اور ترغیب کا بیان
27. بَابُ هَدِيَّةِ مَا يُكْرَهُ لُبْسُهَا:
باب: ایسے کپڑے کا تحفہ دینا جس کا پہننا مکروہ ہو۔
حدیث نمبر: 2613
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ أَبُو جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" أَتَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْتَ فَاطِمَةَ فَلَمْ يَدْخُلْ عَلَيْهَا، وَجَاءَ عَلِيٌّ فَذَكَرَتْ لَهُ ذَلِكَ، فَذَكَرَهُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنِّي رَأَيْتُ عَلَى بَابِهَا سِتْرًا مَوْشِيًّا، فَقَالَ: مَا لِي وَلِلدُّنْيَا، فَأَتَاهَا عَلِيٌّ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهَا، فَقَالَتْ: لِيَأْمُرْنِي فِيهِ بِمَا شَاءَ، قَالَ: تُرْسِلُ بِهِ إِلَى فُلَانٍ أَهْلِ بَيْتٍ بِهِمْ حَاجَةٌ".
ہم سے ابوجعفر محمد بن جعفر نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن فضیل نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے نافع سے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے گئے، لیکن اندر نہیں گئے۔ اس کے بعد علی رضی اللہ عنہ گھر آئے تو فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ذکر کیا (کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف نہیں لائے) علی رضی اللہ عنہ نے اس کا ذکر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اس کے دروازے پر دھاری دار پردہ لٹکا دیکھا تھا (اس لیے واپس چلا آیا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے دنیا (کی آرائش و زیبائش) سے کیا سروکار۔ علی رضی اللہ عنہ نے آ کر ان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ آپ مجھے جس طرح کا چاہیں اس سلسلے میں حکم فرمائیں۔ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ بات پہنچی تو) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فلاں گھر میں اسے بھجوا دیں۔ انہیں اس کی ضرورت ہے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2613  
2613. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ سیدہ فاطمہ ؓ کے گھر تشریف لائے لیکن اندر داخل نہ ہوئے۔ حضر ت علی ؓ جب گھر آئے تو سیدہ فاطمہ ؓ نے ان سے یہ واقعہ بیان کیا۔ انھوں نے نبی کریم ﷺ سے اس کی وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایا: میں نے ان کے دروازے پر نقش ونگار سے سجا ہوا پردہ دیکھا۔ پھر فرمایا: بھلا مجھے اس دنیا سے کیا سروکار؟ یہ بات حضرت علی ؓ نے حضرت فاطمہ ؓ سے بیان کی تو سیدہ فاطمہ نے فرمایا کہ اس کے متعلق آپ ﷺ جو چاہیں حکم دیں اس پر عمل ہوگا۔ آپ نے فرمایا: یہ فلاں اہل خانہ کے پاس بھیج دیں، وہ محتاج اور غریب ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2613]
حدیث حاشیہ:
دروازہ پرکپڑا بطور پردہ لٹکانا ناجائز نہ تھا، مگر محض زیب و زینت کے لیے کپڑا لٹکانا یہ خانوادہ نبوت کے لیے اس لیے مناسب نہیں تھا کہ الفقرُ فخري ان کا طرہ امتیاز تھا۔
آپ نے جو اپنے لیے پسند فرمایا اس کے لیے حضرت فاطمہ ؓ کو ہدایت فرمائی اور ایک موقع پر آیت کریمہ وللاخرۃ خیرلک من الاولیٰ (الضحیٰ: 4)
کی روشنی میں ارشاد ہوا کہ میرے لیے میری آل کے لیے دنیاوی تعیش اور ترفع لائق نہیں، اللہ نے ہمارے لیے، سب کچھ آخرت میں تیار فرمایا ہے۔
حضرت فاطمۃ الزہرار ؓ آنحضرت ﷺ کی بہت ہی پیاری بیٹی ہیں، ان کی والدہ ماجدہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ ہیں۔
ایک روایت کے مطابق یہ آنحضرت ﷺ کی سب سے چھوٹی صاحبزادی ہیں۔
دنیا و آخرت میں تمام عورتوں کی سردار ہیں۔
رمضان2ھ میں ان کا نکاح حضرت علی ؓ سے ہوا اور ذی الحجہ میں رخصتی عمل میں آئی۔
ان کے بطن سے حضرت علی ؓ کے تین صاحبزادے حضرت حسن و حضرت حسین حضرت محسن ؓ اور زینب، ام کلثوم اور رقیہ تین صاحبزادیاں پیدا ہوئیں۔
وفات نبوی کے چھ ماہ بعد مدینہ طیبہ ہی میں بعمر28سال انتقال فرمایا۔
حضرت علی ؓ نے ان کو غسل دیا اور حضرت عباس ؓ نے نماز جنازہ پڑھائی۔
شب میں دفن کی گئیں۔
حضرت حسن اور حسین ؓ اور ان کے علاوہ صحابہ کی ایک جماعت نے ان سے روایت کی ہے۔
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے علاوہ میں نے کسی کو ان سے زیادہ سچا نہیں پایا۔
انہوں نے فرمایا جبکہ ان دونوں کے درمیان کسی بات میں کبیدگی تھی کہ یارسول اللہ ﷺ ان ہی سے پوچھ لیجئے کیوں کہ وہ جھوٹ نہیں بولتی ہیں۔
مزید مناقب اپنے مقام میں آئیں گے۔
(رضي اللہ عنها)
4اپریل 70 ءمیں اس حدیث تک کعبہ شریف مکۃ المکرمہ میں بغور و فکر متن بخاری شریف پارہ دس کو پڑھاگیا۔
اللہ پاک قلم کو لغزش سے بچائے اور کلام رسول اللہ ﷺ کو صحیح طور پر سمجھنے اور اس کا صحیح ترجمہ لکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور تشریحات میں بھی اللہ پاک فہم و فراست نصیب کرے۔
آمین یا رب العالمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2613   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2613  
2613. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ سیدہ فاطمہ ؓ کے گھر تشریف لائے لیکن اندر داخل نہ ہوئے۔ حضر ت علی ؓ جب گھر آئے تو سیدہ فاطمہ ؓ نے ان سے یہ واقعہ بیان کیا۔ انھوں نے نبی کریم ﷺ سے اس کی وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایا: میں نے ان کے دروازے پر نقش ونگار سے سجا ہوا پردہ دیکھا۔ پھر فرمایا: بھلا مجھے اس دنیا سے کیا سروکار؟ یہ بات حضرت علی ؓ نے حضرت فاطمہ ؓ سے بیان کی تو سیدہ فاطمہ نے فرمایا کہ اس کے متعلق آپ ﷺ جو چاہیں حکم دیں اس پر عمل ہوگا۔ آپ نے فرمایا: یہ فلاں اہل خانہ کے پاس بھیج دیں، وہ محتاج اور غریب ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2613]
حدیث حاشیہ:
(1)
دروازے پر لگائے ہوئے پردے میں ذاتی طور پر کوئی خرابی نہ تھی، بلکہ وہ دھاری دار اور اس پر نقش و نگار کا کچھ کام ہوا تھا۔
یہ سادگی اور تقویٰ کے خلاف ضرور تھا، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اسے پسند نہیں فرمایا۔
آپ نے وہ پردہ ایسے لوگوں کو بطور ہدیہ دینے کا حکم دیا جو محتاج تھے۔
وہ اسے فروخت کر کے اپنے کسی مصرف میں لا سکتے تھے لیکن رسول اللہ ﷺ نے سیدہ فاطمہ ؓ کے لیے اسے ناپسند فرمایا کیونکہ آپ خود اور اہل خانہ کے لیے سادگی پسند کرتے تھے۔
(2)
محض زیب و زینت کے لیے کپڑا لٹکانا خاندانِ نبوت کے لیے مناسب نہیں تھا۔
آپ نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے اس طرح کا سامان آخرت میں تیار کر رکھا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2613