سنن نسائي
كتاب قطع السارق -- کتاب: چور کا ہاتھ کاٹنے سے متعلق احکام و مسائل
5. بَابُ : مَا يَكُونُ حِرْزًا وَمَا لاَ يَكُونُ
باب: کون سا سامان محفوظ سمجھا جائے اور کون سا نہ سمجھا جائے؟
حدیث نمبر: 4891
أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا:" أَنَّ امْرَأَةً مَخْزُومِيَّةً كَانَتْ تَسْتَعِيرُ الْمَتَاعَ، فَتَجْحَدُهُ، فَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَطْعِ يَدِهَا".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ قبیلہ مخزوم کی ایک عورت لوگوں کا سامان مانگ لیتی تھی، پھر مکر جاتی تھی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الحدود 15 (4395)، (تحفة الأشراف: 7549) مسند احمد (2/151) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: عاریت (روزمرہ برتے جانے والے سامانوں کی منگنی) کے انکار کر دینے پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مخزومیہ عورت کا ہاتھ کاٹ دیا، اس سے بعض علماء عاریت کے انکار کو بھی چوری مانتے ہیں۔ (اس حدیث کی بعض روایات کے الفاظ سے واضح ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فعل کو چوری سے تعبیر فرمایا) اور بعض علماء کہتے ہیں کہ عاریت کے انکار پر آپ نے اس لیے ہاتھ کاٹا کہ ایسا نہ ہو کہ عاریت دینے کا چلن ہی سماج اور معاشرے سے ختم ہو جائے تو لوگ پریشانی میں مبتلا ہو جائیں۔ بہرحال عاریت کے انکار پر ہاتھ کاٹنا ثابت ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4891  
´کون سا سامان محفوظ سمجھا جائے اور کون سا نہ سمجھا جائے؟`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ قبیلہ مخزوم کی ایک عورت لوگوں کا سامان مانگ لیتی تھی، پھر مکر جاتی تھی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب قطع السارق/حدیث: 4891]
اردو حاشہ:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص عاریتا کوئی چیز لے کر انکار کردے جب کہ گواہ موجود ہوں تو اسے چور سمجھ کر اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ یہ امام احمد اور اسحاق وغیرہ کا موقف ہے کیونکہ یہ بھی چوری کی ایک قسم ہے بلکہ اس کا نقصان معاشرے کے لیے زیادہ ہے کیونکہ اگر اس پر سزا نہ دی جائے تو لوگ عاریتا چیزیں دینے سے انکار کردیں گے جس سے غریب لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پھر اس کی چوری کے ساتھ مشابہت ہے کہ یہ بھی حیلے کے ساتھ لوگوں کے مال محفوظ کو اڑانا ہے اور چوری میں بھی یہی کچھ ہوتا ہے، لہذا اس جرم پر بھی چوری والی سزا دی جائے گی۔ اور رسول اللہ ﷺ شرعا اس بات کے مجاز ہیں کہ شرعی اطلاقات کی وضاحت فرمائیں اس لیے بعض محدثین اس جرم پر بھی ہاتھ کاٹنے کے قائل ہیں جب کہ جمہور اہل علم اس کے قائل نہیں بلکہ صرف چوری پر قطع ید نافذ کرتے ہیں۔ اس حدیث کی تاویل وہ اس طرح کرتے ہیں کہ آپ نے اس جرم پر اس کا ہاتھ نہیں کاٹا تھا بلکہ چوری پر کاٹا تھا جیسا کہ بعض روایات میں وضاحت ہے کہ اس نے چوری کی تھی۔ یہ جرم تو اس کی مزید مذمت کرنے کے لیے ذکر کیا گیا ہے۔ چونکہ دیگر روایات وطرق میں بصراحت چوری پر قطع کا ذکر موجود ہے پھر واقعہ بھی ایک دفعہ ہی پیش آیا ہے اس لیے راجح موقف جمہور ہی کا ہے کہ قطع ید صرف چوری پر ہوگا۔ واللہ أعلم
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4891