سنن نسائي
كتاب قطع السارق -- کتاب: چور کا ہاتھ کاٹنے سے متعلق احکام و مسائل
5. بَابُ : مَا يَكُونُ حِرْزًا وَمَا لاَ يَكُونُ
باب: کون سا سامان محفوظ سمجھا جائے اور کون سا نہ سمجھا جائے؟
حدیث نمبر: 4893
أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْحَسَنُ بْنُ حَمَّادٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ هَاشِمٍ الْجَنْبِيُّ أَبُو مَالِكٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ امْرَأَةً كَانَتْ تَسْتَعِيرُ الْحُلِيَّ لِلنَّاسِ، ثُمَّ تُمْسِكُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لِتَتُبْ هَذِهِ الْمَرْأَةُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ , وَتَرُدَّ مَا تَأْخُذُ عَلَى الْقَوْمِ"، ثُمَّ قَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قُمْ يَا بِلَالُ , فَخُذْ بِيَدِهَا فَاقْطَعْهَا".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک عورت لوگوں کے زیورات مانگ لیتی پھر اسے رکھ لیتی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس عورت کو اللہ اور اس کے رسول سے توبہ کرنی چاہیئے، اور جو کچھ لیتی ہے اسے لوگوں کو لوٹا دینا چاہیئے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال کھڑے ہو اور اس کا ہاتھ پکڑ کر کاٹ دو۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 8079، 19500) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4893  
´کون سا سامان محفوظ سمجھا جائے اور کون سا نہ سمجھا جائے؟`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک عورت لوگوں کے زیورات مانگ لیتی پھر اسے رکھ لیتی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس عورت کو اللہ اور اس کے رسول سے توبہ کرنی چاہیئے، اور جو کچھ لیتی ہے اسے لوگوں کو لوٹا دینا چاہیئے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال کھڑے ہو اور اس کا ہاتھ پکڑ کر کاٹ دو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب قطع السارق/حدیث: 4893]
اردو حاشہ:
واپس کردے اس جرم میں گنجائش ہے کہ اگر وہ مجرم بعد میں چیز واپس کردے تو اسے معافی مل جائے گی البتہ چوری میں یہ گنجائش نہیں بلکہ جرم ثابت ہونے کے بعد کسی بھی صورت میں معافی نہیں ہو سکتی اور ہاتھ کاٹا جائے گا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4893