صحيح البخاري
كِتَاب الْهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا -- کتاب: ہبہ کےمسائل فضیلت اور ترغیب کا بیان
32. بَابُ مَا قِيلَ فِي الْعُمْرَى وَالرُّقْبَى:
باب: عمریٰ اور رقبیٰ کے بارے میں روایات۔
أَعْمَرْتُهُ الدَّارَ فَهِيَ عُمْرَى جَعَلْتُهَا لَهُ اسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا جَعَلَكُمْ عُمَّارًا.
(اگر کسی نے کہا کہ) میں نے عمر بھر کے لیے تمہیں یہ مکان دے دیا تو اسے عمریٰ کہتے ہیں (مطلب یہ ہے کہ اس کی عمر بھر کے لیے) مکان میں نے اس کی ملکیت میں دے دیا۔ قرآنی لفظ «استعمركم فيها» کا مفہوم یہ ہے کہ اس نے تمہیں زمین میں بسایا۔
حدیث نمبر: 2625
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْعُمْرَى أَنَّهَا لِمَنْ وُهِبَتْ لَهُ".
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، ان سے شیبان نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمریٰ کے متعلق فیصلہ کیا تھا کہ وہ اس کا ہو جاتا ہے جسے ہبہ کیا گیا ہو۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 282  
´عمریٰ کا بیان`
«. . . 21- عن أبى سلمة عن جابر بن عبد الله أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: أيما رجل أعمر عمرى له ولعقبه: فإنها للذي يعطاها لا ترجع إلى الذى أعطاها لأنه أعطى عطاء وقعت فيه المواريث . . .»
. . . سیدنا جابر بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کو عمریٰ (عمر بھر کے لئے کسی چیز کا تحفہ) دیا جائے کہ یہ اس کا اور اس کے وارثوں کا حق ہے تو جسے عمریٰ ملا اسی کا ہو جائے گا اور دینے والے کی طرف واپس نہیں لوٹے گا کیونکہ اس نے اس طرح دیا ہے کہ اس میں وارثت کے احکام جاری ہو گئے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 282]

تخریج الحدیث:
[الموطأ رواية يحييٰ بن يحييٰ 756/2 ض 1517، ك 36 ب 37 ح 43، التمهيد 112/7، الاستذكار: 1446، و أخرجه مسلم فواد عبدالباقی ترقیم 1625، دارالسلام 4188، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس عمریٰ کو جائز رکھا ہے وہ یہ ہے کہ عمریٰ دینے والا کہے: یہ تیرے لئے اور تیرے وارثوں کے لئے ہے۔ اگر وہ یہ کہے کہ یہ تیرے لئے ہے جتنا عرصہ تو زندہ رہے تو یہ عمریٰ دینے والے کے پاس واپس لوٹ جائے گا۔ امام زہری بھی اس کے مطابق فتویٰ دیتے تھے۔ [صحيح مسلم 1265/23، وترقيم دارالسلام: 4191]
➋ ام المؤمنین سیدہ حفصہ بنت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہما نے زید بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی بیٹی کو ایک گھر عمر بھر کے لئے دیا۔ جب زید رضی اللہ عنہ کی بیٹی فوت ہو گئی تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے وہ گھر واپس لے لیا۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ (بہن کے وارث ہونے کی وجہ سے) یہ گھر ان کا ہے۔ [موطأ امام مالك 756/2 ح 1519 وسنده صحيح]
➌ قاسم بن محمد بن ابی بکر رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ میں نے لوگوں کو اسی بات پر پایا ہے کہ وہ اپنے امول کے بارے میں اور جو انہیں ملتا شرطوں کی پابندی کرتے تھے۔ [موطأ امام مالك 756/2 ح 1518 وسنده صحيح]
➍ امام مالک فرماتے تھے: ہمارے ہاں (مدینے میں) اسی پر عمل ہے کہ عمریٰ، عمریٰ دینے والے کو لوٹ جاتا ہے بشرطیکہ وہ یہ نہ کہے کہ یہ تیرے لئے اور تیرے وارثوں کے لئے ہے۔ [موطأ امام مالك 756/2 ح 1518 وسنده صحيح]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 21   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2383  
´رقبی کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمریٰ اس شخص کا ہو جائے گا جس کو عمریٰ دیا گیا، اور رقبیٰ اس شخص کا ہو جائے گا جس کو رقبیٰ دیا گیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الهبات/حدیث: 2383]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
رقبٰی کامطلب یہ ہےکہ میں تمھیں مثلاً:
یہ مکان دیتا ہوں۔
اگر تم پہلے فوت ہوئے تومکان مجھے واپس مل جائے گا اور اگرمیں پہلے فوت ہوا تومکان تمھارا رہے گا۔

(2)
عمریٰ اور رقبٰی میں فرق یہ ہےکہ عمرٰی میں صرف لینے والے کی عمر کا لحاظ ہوتا تھا کہ جب تک وہ زندہ رہے اس مکان میں رہے گا خواہ دینے والے سےپہلے فوت ہو یا بعد میں۔
جب بھی لینے والا فوت ہوگا، مکان دینے والے کو یا اس کے وارثوں کوواپس مل جائے گا۔
رقبیٰ میں یہ شرط ہوتی تھی کہ صرف اس صورت میں واپس ملے گا، اگر لینے والا پہلے فوت ہو۔
اگر دینے والا پہلے فوت ہوتو مکان لینے والے ہی کا ہو جاتا تھا۔

(3)
عمرٰی اوررقبٰی دونوں کا رواج عرب میں اسلام سے پہلے موجود تھا۔
اسلام میں ان دونوں کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔

(4)
ہبہ کرنا جائز ہے۔
اگر عمرٰی یا رقبٰی والی شرط رکھ کی کسی کوکچھ دیا جائے تووہ ہبہ ہی شمار ہوگا اوریہ شرط خلاف شریعت ہونےکی وجہ سے کالعدم ہو گی۔

(5)
اگر کوئی شخص کسی غریب کی مدد کرناچاہتا ہےاوریہ بھی چاہتا ہے کہ مکان وغیرہ اس کی ملکیت میں رہے تو اسے عاریتاً کچھ مدت کےلیے دینا چاہیے۔
مدت ختم ہونے پر ضرورت محسوس کی جائے تومدت میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2383   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1351  
´رقبیٰ کا بیان۔`
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمریٰ جس کو دیا گیا اس کے گھر والوں کا ہے اور رقبیٰ ۱؎ بھی جس کو دیا گیا ہے اس کے گھر والوں کا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1351]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
رقبیٰ رقب سے ہے جس کے معنی انتظار کے ہیں۔
اسلام نے اس میں اتنی تبدیلی کی کہ وہ چیز موہوب لہ (جس کو وہ چیز دی گئی) کی ہی رہے گی۔
موہوب لہ کے مرنے کے بعد اس کے وارثوں کو وراثت میں تقسیم ہوگی۔
واہب کو بھی نہیں لوٹے گی،
جیسے عمریٰ میں ہے۔
رقبیٰ میں یہ ہوتا تھا کہ ہبہ کرنے والا یوں کہتا کہ یہ چیز میں نے تم کو تمہاری عمر تک دے دی،
تمہاری موت کے بعد یہ چیز مجھے لوٹ آئے گی،
اور اگر میں مر گیا تو تمہاری ہی رہے گی،
پھر تم مرجاؤ گے تو میرے وارثوں کو لوٹ آئے گی۔
اب ہر ایک دوسرے کی موت کا انتظار کیا کرتاتھا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1351   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3556  
´کوئی چیز کسی کو دے کر یہ کہنا کہ یہ چیز تمہاری اور تمہارے اولاد کے لیے ہے۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رقبیٰ اور عمریٰ نہ کرو جس نے رقبیٰ اور عمریٰ کیا تو یہ جس کو دیا گیا ہے اس کا اور اس کے وارثوں کا ہو جائے گا ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3556]
فوائد ومسائل:
فائدہ: (رقبیٰ) میں اس انداز سے ہدیہ دیا جاتا ہے۔
کہ کہے جیتے جی یہ چیز استعمال کرتے رہو۔
اگر تو پہلے فوت ہوگیا تو مجھے واپس ہوگی۔
ورنہ تیری ہوئی۔
بلاشبہ اس قدر طویل مدت تک ایک چیز پر متصرف رہنے کی وجہ سے انسان اس سے مانوس ہوجاتا ہے۔
جسے بعد ازاں واپس کرنا فتنے کا باعث بنتا ہے۔
اس لئے یا تو ہدیہ کلی طور پردے دینا چاہیے یا پھر مناسب مدت کے بعد واپس لے لے۔
بنا بریں عمریٰ یا رقبیٰ کے نام سے جو ہدیہ دیا جائے گا۔
وہ ہمیشہ کےلئے موہوب لہ کا ہوجائےگا۔
راحج مذہب یہی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3556   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2625  
2625. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ نے عمر کے بارے میں یہ فیصلہ کیا کہ وہ اسی کا ہے جس کو ہبہ کیا گیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2625]
حدیث حاشیہ:
عمریٰ کسی شخص کو مثلاً عمر بھر رہنے کے لیے مکان دینا۔
رقبیٰ یہ ہے مثلاً کسی کو ایک مکان دے اس شرط پر کہ اگر دینے والا پہلے مرجائے تو مکان اس کا ہوگیا اور اگر لینے والا پہلے مرجائے تو مکان پھر دینے والے کا ہوجائے گا۔
اس میں ہر ایک دوسرے کی موت کو تکتا رہتا ہے۔
اس لیے اس کا نام رقبیٰ ہوا۔
یہ دونوں عقد جاہلیت کے زمانے میں مروج تھے۔
جمہور علماءکے نزدیک دونوں صحیح ہیں اور امام ابوحنیفہ ؒنے رقبیٰ کو منع رکھا ہے۔
اور جمہور علماءکے نزدیک عمریٰ لینے والے کا ملک ہوجاتا ہے اور دینے والے کی طرف نہیں لوٹتا۔
امام بخاری ؒ نے جو حدیث اس باب میں بیان کی، اس میں صرف عمریٰ کا ذکر ہے رقبیٰ کا نہیں۔
اور شاید انہوں نے دونوں کو ایک سمجھا۔
(وحیدی)
حافظ صاحب فرماتے ہیں:
وَالْعُمْرَى بِضَمِّ الْمُهْمَلَةِ وَسُكُونِ الْمِيمِ مَعَ الْقَصْرِ وَحُكِيَ ضَمُّ الْمِيمِ مَعَ ضَمِّ أَوَّلِهِ وَحُكِيَ فَتْحُ أَوَّلِهِ مَعَ السُّكُونِ مَأْخُوذٌ مِنَ الْعَمْرِ وَالرُّقْبَى بِوَزْنِهَا مَأْخُوذَةٌ مِنَ الْمُرَاقَبَةِ لِأَنَّهُمْ كَانُوا يَفْعَلُونَ ذَلِكَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَيُعْطِي الرَّجُلَ الدَّارَ وَيَقُولُ لَهُ أَعْمَرْتُكَ إِيَّاهَا أَيْ أَبَحْتُهَا لَكَ مُدَّةَ عُمُرِكَ فَقِيلَ لَهَا عُمْرَى لِذَلِكَ وَكَذَا قِيلَ لَهَا رُقْبَى لِأَنَّ كُلًّا مِنْهُمَا يَرْقُبُ مَتَى يَمُوتُ الْآخَرُ لِتَرْجِعَ إِلَيْهِ وَكَذَا وَرَثَتُهُ فَيَقُومُونَ مقَامه فِي ذَلِك هَذَا أَصْلهَا لُغَة وَأما شَرْعًا فَالْجُمْهُورُ عَلَى أَنَّ الْعُمْرَى إِذَا وَقَعَتْ كَانَتْ مِلْكًا لِلْآخِذِ وَلَا تَرْجِعُ إِلَى الْأَوَّلِ إِلَّا إِنْ صَرَّحَ بِاشْتِرَاطِ ذَلِكَ وَذَهَبَ الْجُمْهُورُ إِلَى صِحَّةِ الْعُمْرَى (فتح الباري)
خلاصہ یہ کہ لفظ عمریٰ عمر سے ماخوذ ہے اور رقبیٰ مراقبہ سے۔
اس لیے کہ جاہلیت میں دستور تھا کوئی آدمی بطور عطیہ کسی کو اپنا گھر اس شرط پر دے دیتا کہ یہ گھر صرف تیری مدت عمر تک کے لیے میں تجھے بخشش کرتا ہوں اسی لیے اسے عمریٰ کہاگیا اور رقبیٰ اس لیے کہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کی موت کا منتظر رہتا کہ کب وہ موہوب لہ انتقال کرے اور کب گھر واہب کو واپس ملے۔
اسی طرح اس کے وارث منتظر رہتے۔
یہ لغوی طور پر ہے شرعاً یہ کہ جمہور کے نزدیک عمریٰ جب واقع ہوجائے تو وہ لینے والے کی ملکیت بن جاتاہے اور اول کی طرف واپس نہیں ہوسکتا۔
مگر اس صورت میں کہ دینے والا صراحت کے ساتھ واپسی کی شرط لگادے اور جمہور کے نزدیک عمریٰ صحیح ثابت ہوجاتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2625