سنن نسائي
كتاب الزينة من السنن -- کتاب: زیب و زینت اور آرائش کے احکام و مسائل
2. بَابُ : إِحْفَاءِ الشَّارِبِ
باب: مونچھیں کٹانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 5050
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، قَالَ: سَمِعْتُ يُوسُفَ بْنَ صُهَيْبٍ يُحَدِّثُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَنْ لَمْ يَأْخُذْ شَارِبَهُ فَلَيْسَ مِنَّا".
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جس نے مونچھیں نہیں کاٹیں وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 13 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 13  
´مونچھ کترنا۔`
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اپنی مونچھ کے بال نہ لے وہ ہم میں سے نہیں ۱؎۔ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 13]
13۔ اردو حاشیہ:
➊ مونچھیں، بلوغت کا نشان ہیں، اس سے بچے اور بڑے میں تمیز ہوتی ہے، مگر یہ منہ کے اوپر ہوتی ہیں، زیادہ بڑی ہو جائیں تو کھانے پینے کی چیزوں کو لگیں گی۔ خود بھی آلودہ ہوں گی اور کھانے پینے کی چیزیں بھی گرد وغبار وغیرہ سمیت پیٹ میں جائیں گی، لہٰذا بالائی ہونٹ سے نیچے مونچھوں کو کاٹنا عقلی تقاضا ہے۔ شریعت اسلامیہ کا حکم بھی یہی، البتہ مونچھوں کے کنارے جو ڈاڑھی سے مل جائیں، بغیر کاٹے رکھے جا سکتے ہیں۔
➋ مذکورہ احادیث (نمبر 9 سے 11) امیں پانچ فطری امور ذکر کیے گئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ صرف یہ پانچ چیزیں ہی فطرت میں داخل ہیں بلکہ دوسری احادیث میں ان کے علاوہ کچھ اور چیزوں کا بھی ذکر ہے، مثلاً: ایک روایت میں ہے: «عشر من الفطرہ» دس چیزیں فطرت سے ہیں۔ (صحيح مسلم، الطهارة، حديث: 261) ان کا ذکر ان شاء اللہ اپنے مقام پر آئے گا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 13   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5050  
´مونچھیں کٹانے کا بیان۔`
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جس نے مونچھیں نہیں کاٹیں وہ ہم میں سے نہیں ہے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الزينة من السنن/حدیث: 5050]
اردو حاشہ:
(1) مونچھیں نہ کاٹے یعنی کاٹنے کی ضرورت ہو، مثلاً: وہ منہ میں پڑنے لگیں۔ مشروب سے آلودہ ہوں وغیرہ: ورنہ ہر روز کاٹنا ضروری نہیں اور نہ ساری زندگی میں ایک آدھ دفعہ کاٹ لینا ہی کافی ہے۔
(2) ہم میں سے نہیں۔ یعنی ہمارے طریقۂ کار پر عمل پیرا نہیں، یا دیکھنےمیں مسلمان نہیں لگتا، یا تشبیہ مراد ہے کہ وہ غیر مسلموں جیسا ہے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5050   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2761  
´مونچھیں کترنے کا بیان۔`
زید بن ارقم رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنی مونچھوں کے بال نہ لیے (یعنی انہیں نہیں کاٹا) تو وہ ہم میں سے نہیں ہے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الأدب/حدیث: 2761]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی وہ ہماری سنت اور ہمارے طریقے کا مخالف ہے،
کیونکہ مونچھیں بڑھانا کفارومشرکین کا شعار ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2761