صحيح البخاري
كِتَاب الْهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا -- کتاب: ہبہ کےمسائل فضیلت اور ترغیب کا بیان
35. بَابُ فَضْلِ الْمَنِيحَةِ:
باب: تحفہ «منيحة» کی فضیلت کے بارے میں۔
حدیث نمبر: 2634
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ طَاوُسٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَعْلَمُهُمْ بِذَاكَ يَعْنِي ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَى أَرْضٍ تَهْتَزُّ زَرْعًا، فَقَالَ: لِمَنْ هَذِهِ؟ فَقَالُوا: اكْتَرَاهَا فُلَانٌ، فَقَالَ:" أَمَا إِنَّهُ لَوْ مَنَحَهَا إِيَّاهُ كَانَ خَيْرًا لَهُ مِنْ أَنْ يَأْخُذَ عَلَيْهَا أَجْرًا مَعْلُومًا".
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا، کہا ہم سے ایوب نے بیان کیا، ان سے عمرو نے، ان سے طاؤس نے بیان کیا کہ مجھ سے ان میں سب سے زیادہ اس (مخابرہ) کے جاننے والے نے بیان کیا، ان کی مراد ابن عباس رضی اللہ عنہما سے تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ ایسے کھیت کی طرف تشریف لے گئے جس کی کھیتی لہلہا رہی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا یہ کس کا ہے؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے بتلایا کہ فلاں نے اسے کرایہ پر لیا ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر وہ ہدیتاً دے دیتا تو اس سے بہتر تھا کہ اس پر ایک مقررہ اجرت وصول کرتا۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2462  
´تہائی یا چوتھائی پیداوار پر بٹائی کی رخصت کا بیان۔`
عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ میں نے طاؤس سے کہا: اے ابوعبدالرحمٰن! کاش آپ اس بٹائی کو چھوڑ دیتے، اس لیے کہ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے، تو وہ بولے: عمرو! میں ان کی مدد کرتا ہوں، اور ان کو (زمین بٹائی پر) دیتا ہوں، اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے ہماری موجودگی میں لوگوں سے ایسا معاملہ کیا ہے، اور ان کے سب سے بڑے عالم یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھے بتایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع نہیں کیا، بلکہ یوں فرمایا: اگر تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو یوں ہی بغیر کرایہ کے دی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الرهون/حدیث: 2462]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
عالم سے مسئلہ پوچھنے میں احترام پوری طرح ملحوظ رکھنا چاہیے۔

(2)
عالم کو چاہیے کہ مسئلہ پوچھنے والے کو وضاحت سے مسئلہ سمجھا کر مطمئن کرے۔
اپنے موقف کی تائید میں اپنے سے بڑے عالم کا حوالہ دیا جا سکتا ہے جس طرح تابعی حضرت طاوس رحمت اللہ علیہ نے دو صحابیوں حضرت معاذ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا حوالہ دیا اس سے عام سائل کو زیادہ اطمینان ہو جاتا ہے۔

(3)
مقرر معاوضہ سے مراد متعین رقم کا معاہدہ ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2462   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2634  
2634. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، کہ نبی ﷺ ایک کھیت کے پاس سے گزرے جس میں کھیتی لہلہا رہی تھی۔ آپ نے فرمایا: یہ کس کی زمین ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: یہ کھیت فلاں آدمی نے کرائے پر لے رکھا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر اس کا مالک منیحہ کے طور پر بخش دیتا تو اس پر ایک مقررہ اجرت وصول کرنے سے بہتر تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2634]
حدیث حاشیہ:
مطلب آنحضرت ﷺ کا یہ تھا کہ اگر زمین بے کار پڑی ہو تو اپنے مسلمان بھائی کو مفت زراعت کے لیے دے دے۔
اس کا کرایہ لینے سے یہ امر افضل ہے اور کرایہ لینے سے آپ نے منع نہیں فرمایا۔
دوسری روایت میں عمرو نے طاؤس سے کہا، کاش! تم بٹائی کرنا چھوڑدو، کیوں کہ لوگ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے اس سے منع کیا ہے۔
انہوں نے کہاعمرو! میں تو لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہوں اور صحابہ میں جو سب سے زیادہ علم رکھتے تھے یعنی ابن عباس ؓ انہوں نے مجھ سے بیان کیا، آخر تک یہ نہ بھولنا چاہئے کہ عہد نبوی نہ صرف عرب بلکہ ساری دنیا میں انسانی، تمدنی، معاشرتی ترقی کا ابتدائی دور تھا۔
اس دور میں غیر آباد زمینوں کو آباد کرنے کی سخت ضرورت تھی۔
ان ہی مقاصد کے پیش نظر پیغمبر اسلام ﷺ نے زمین کو آباد کرنے کے سلسلہ میں ہر ممکن آسانی و سہولت کو مدنظر رکھا اور اس کو زیادہ عوامی بنانے کی رغبت دلائی، مگر بعد کے زمانوںمیں جاگیرداری نظام نے زمیندار اور کاشت کار دو طبقے پیدا کردئیے جن کے نتائج بد کی سنگین سزائیں آج تک یہ دونوں گروہ باہمی کش مکش کی شکل میں بھگت رہے ہیں۔
کاش اسلامی نظام دنیا میں برپا ہو، جس کی برکت سے نوع انسانی کو ان مصائب سے نجات مل سکے۔
آمین
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2634   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2634  
2634. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، کہ نبی ﷺ ایک کھیت کے پاس سے گزرے جس میں کھیتی لہلہا رہی تھی۔ آپ نے فرمایا: یہ کس کی زمین ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: یہ کھیت فلاں آدمی نے کرائے پر لے رکھا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر اس کا مالک منیحہ کے طور پر بخش دیتا تو اس پر ایک مقررہ اجرت وصول کرنے سے بہتر تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2634]
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کی زمین بے کار اور فالتو پڑی ہے تو اپنے مسلمان بھائی کو مفت دے دے تاکہ وہ اسے آباد کرے۔
واضح رہے کہ اس وقت تمدنی، معاشرتی ترقی کا ابتدائی دور تھا، اس دور میں غیر آباد زمینوں کو آباد کرنے کی سخت ضرورت تھی۔
انہی مقاصد کے پیش نظر آپ نے رغبت دلائی۔
آباد زمینوں کے متعلق تو انصار اور مہاجرین کے درمیان بٹائی کا معاہدہ ہو چکا تھا، بے آباد اور فالتو زمین کے متعلق آپ نے فرمایا:
اسے فضیلت کے طور پر اگر دے دیا جائے تو بہتر ہے۔
اس سے بٹائی یا ٹھیکے پر دینے کی نفی نہیں ہوتی۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2634