صحيح البخاري
كِتَاب الشَّهَادَاتِ -- کتاب: گواہوں کے متعلق مسائل کا بیان
2. بَابُ إِذَا عَدَّلَ رَجُلٌ أَحَدًا فَقَالَ لاَ نَعْلَمُ إِلاَّ خَيْرًا. أَوْ قَالَ مَا عَلِمْتُ إِلاَّ خَيْرًا:
باب: اگر ایک شخص دوسرے کے نیک عادات و عمدہ خصائل بیان کرنے کے لیے اگر صرف یہ کہے کہ ہم تو اس کے متعلق اچھا ہی جانتے ہیں یا یہ کہے کہ میں اس کے متعلق صرف اچھی بات جانتا ہوں۔
لِقَوْلِهِ تَعَالَى: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكْتُبُوهُ وَلْيَكْتُبْ بَيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ وَلا يَأْبَ كَاتِبٌ أَنْ يَكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللَّهُ فَلْيَكْتُبْ وَلْيُمْلِلِ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ وَلا يَبْخَسْ مِنْهُ شَيْئًا فَإِنْ كَانَ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ سَفِيهًا أَوْ ضَعِيفًا أَوْ لا يَسْتَطِيعُ أَنْ يُمِلَّ هُوَ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِ وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِنْ رِجَالِكُمْ فَإِنْ لَمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَنْ تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الأُخْرَى وَلا يَأْبَ الشُّهَدَاءُ إِذَا مَا دُعُوا وَلا تَسْأَمُوا أَنْ تَكْتُبُوهُ صَغِيرًا أَوْ كَبِيرًا إِلَى أَجَلِهِ ذَلِكُمْ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ وَأَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَأَدْنَى أَلَّا تَرْتَابُوا إِلا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِيرُونَهَا بَيْنَكُمْ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَلَّا تَكْتُبُوهَا وَأَشْهِدُوا إِذَا تَبَايَعْتُمْ وَلا يُضَارَّ كَاتِبٌ وَلا شَهِيدٌ وَإِنْ تَفْعَلُوا فَإِنَّهُ فُسُوقٌ بِكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللَّهُ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ سورة البقرة آية 282، وَقَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَى أَنْفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالأَقْرَبِينَ إِنْ يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللَّهُ أَوْلَى بِهِمَا فَلا تَتَّبِعُوا الْهَوَى أَنْ تَعْدِلُوا وَإِنْ تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا سورة النساء آية 135.
‏‏‏‏ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے (سورۃ البقرہ میں) فرمایا ہے اے ایمان والو! جب تم آپس میں ادھار کا معاملہ کسی مدت مقررہ تک کے لیے کرو تو اس کو لکھ لیا کرو اور لازم ہے کہ تمہارے درمیان لکھنے والا ٹھیک صحیح لکھے اور لکھنے سے انکار نہ کرے۔ جیسا کہ اللہ نے اس کو سکھایا ہے۔ پس چاہئے کہ وہ لکھ دے اور چاہئے کہ وہ شخص لکھوائے جس کے ذمے حق واجب ہے اور چاہئے کہ وہ اپنے پروردگار اللہ سے ڈرتا رہے اور اس میں سے کچھ بھی کم نہ کرے۔ پھر اگر وہ جس کے ذمے حق واجب ہے کم عقل ہو یا یہ کہ کمزور ہو اور اس قابل نہ ہو کہ وہ خود لکھوا سکے تو لازم ہے کہ اس کا کارکن ٹھیک ٹھیک لکھوا دے اور اپنے مردوں میں سے دو کو گواہ کر لیا کرو۔ پھر اگر دونوں مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں، ان گواہوں میں سے جنہیں تم پسند کرتے ہو تاکہ ان دو عورتوں میں سے ایک دوسری کو یاد دلا دے اگر کوئی ایک ان دونوں میں سے بھول جائے اور گواہ جب بلائے جائیں تو انکار نہ کریں اور اس (معاملے) کو خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، اس کی میعاد تک لکھنے سے اکتا نہ جاؤ، یہ کتابت اللہ کے نزدیک زیادہ سے زیادہ انصاف سے نزدیک ہے اور گواہی کو درست تر رکھنے والی ہے اور زیادہ لائق اس کے کہ تم شبہ میں نہ پڑو، بجز اس کے کہ کوئی سودا ہاتھوں ہاتھ ہو جسے تم باہم لیتے دیتے ہی رہتے ہو۔ سو تم پر اس میں کوئی الزام نہیں کہ تم اسے نہ لکھو اور جب خرید و فروخت کرتے ہو تب بھی گواہ کر لیا کرو اور کسی کاتب اور گواہ کو نقصان نہ دیا جائے اور اگر ایسا کرو گے تو یہ تمہارے حق میں ایک گناہ ہو گا اور اللہ سے ڈرتے رہو اور اللہ تمہیں سکھاتا ہے اور اللہ ہر چیز کا بہت جاننے والا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اے ایمان والو! انصاف پر خوب قائم رہنے والے اور اللہ کے لیے گواہی دینے والے بن کر رہو۔ چاہے تمہارے یا (تمہارے) والدین اور عزیزوں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ وہ امیر ہو یا مفلس، اللہ (بہرحال) دونوں سے زیادہ حقدار ہے۔ تو خواہش نفس کی پیروی نہ کرنا کہ (حق سے) ہٹ جاؤ اور اگر تم کجی کرو گے یا پہلو تہی کرو گے، تو جو کچھ تم کر رہے ہو، اللہ اس سے خوب خبردار ہے۔
حدیث نمبر: 2637
حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ النُّمَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، وَقَالَ اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، وَابْنُ الْمُسَيَّبِ، وَعَلْقَمَةُ بْنُ وَقَّاصٍ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ حَدِيثِ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، وَبَعْضُ حَدِيثِهِمْ يُصَدِّقُ بَعْضًا، حِينَ قَالَ لَهَا أَهْلُ الْإِفْكِ مَا قَالُوا، فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا، وَأُسَامَةَ حِينَ اسْتَلْبَثَ الْوَحْيُ يَسْتَأْمِرُهُمَا فِي فِرَاقِ أَهْلِهِ، فَأَمَّا أُسَامَةُ، فَقَالَ: أَهْلُكَ وَلَا نَعْلَمُ إِلَّا خَيْرًا، وَقَالَتْ بَرِيرَةُ: إِنْ رَأَيْتُ عَلَيْهَا أَمْرًا أَغْمِصُهُ أَكْثَرَ مِنْ أَنَّهَا جَارِيَةٌ حَدِيثَةُ السِّنِّ تَنَامُ عَنْ عَجِينِ أَهْلِهَا فَتَأْتِي الدَّاجِنُ فَتَأْكُلُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ يَعْذِرُنَا فِي رَجُلٍ بَلَغَنِي أَذَاهُ فِي أَهْلِ بَيْتِي، فَوَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ مِنْ أَهْلِي إِلَّا خَيْرًا، وَلَقَدْ ذَكَرُوا رَجُلًا مَا عَلِمْتُ عَلَيْهِ إِلَّا خَيْرًا".
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن عمر نمیری نے بیان کیا، کہا ہم سے ثوبان نے بیان کیا اور لیث بن سعد نے بیان کیا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، انہیں عروہ، ابن مسیب، علقمہ بن وقاص اور عبیداللہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کے متعلق خبر دی اور ان کی باہم ایک کی بات دوسرے کی بات کی تصدیق کرتی ہے کہ جب ان پر تہمت لگانے والوں نے تہمت لگائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی اور اسامہ رضی اللہ عنہما کو اپنی بیوی (عائشہ رضی اللہ عنہا) کو اپنے سے جدا کرنے کے متعلق مشورہ کرنے کے لیے بلایا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اب تک (اس سلسلے میں) وحی نہیں آئی تھی۔ اسامہ رضی اللہ عنہ نے تو یہ کہا کہ آپ کی زوجہ مطہرہ (عائشہ رضی اللہ عنہا) میں ہم سوائے خیر کے اور کچھ نہیں جانتے۔ اور بریرہ رضی اللہ عنہا (ان کی خادمہ) نے کہا کہ میں کوئی ایسی چیز نہیں جانتی جس سے ان پر عیب لگایا جا سکے۔ اتنی بات ضرور ہے کہ وہ نوعمر لڑکی ہیں کہ آٹا گوندھتی اور پھر جا کے سو رہتی ہے اور بکری آ کر اسے کھا لیتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (تہمت کے جھوٹ ثابت ہونے کے بعد) فرمایا کہ ایسے شخص کی طرف سے کون عذر خواہی کرے گا جو میری بیوی کے بارے میں بھی مجھے اذیت پہنچاتا ہے۔ قسم اللہ کی! میں نے اپنے گھر میں خیر کے سوا اور کچھ نہیں دیکھا اور لوگ ایسے شخص کا نام لیتے ہیں جس کے متعلق بھی مجھے خیر کے سوا اور کچھ معلوم نہیں۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 785  
´ «بسم الله الرحمن الرحيم» زور سے نہ پڑھنے کے قائلین کی دلیل کا بیان۔`
عروہ نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہوئے واقعہ افک کا ذکر کیا، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے اور آپ نے اپنا چہرہ کھولا اور فرمایا: «أعوذ بالسميع العليم من الشيطان الرجيم * إن الذين جاءوا بالإفك عصبة منكم‏» ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث منکر ہے، اسے ایک جماعت نے زہری سے روایت کیا ہے مگر ان لوگوں نے یہ بات اس انداز سے ذکر نہیں کی اور مجھے اندیشہ ہے کہ استعاذہ کا معاملہ خود حمید کا کلام ہو۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 785]
785۔ اردو حاشیہ:
امام صاحب کا اس حدیث کو منکر بتا کر یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ قرآن کریم اور احادیث صحیحہ سے تعوذ کا طریقہ یہ ثابت ہے کہ اس میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا نام بھی آئے، کیونکہ قرآن میں ہے: «فَاسْتَعِذْ بِاللَّـهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ» [النحل۔ 98/16]
اللہ کے ذریعے سے شیطان مردود سے پناہ مانگو۔ اور احادیث میں بھی «اعوذ بالله من الشيطان الرجيم» اور «اعوذ بالله السميع العليم من الشيطان الرجيم» کے الفاظ وارد ہوئے ہیں۔ «اعوذ بالسمع العليم» نہیں ہے، یہ الفاظ صرف حمید راوی بیان کرتا ہے، دوسرے راویوں نے اس طرح بیان نہیں کیا ہے۔ اس لئے یہ حدیث امام ابوداؤد رحمہ اللہ کے نزدیک منکر ہے۔ لیکن صاحب عون المعبود فرماتے ہیں کہ اس لہاظ سے یہ روایت منکر نہیں شاذ ہو گی۔ اور شاذ روایت وہ ہوتی ہے، جس میں مقبول راوی اپنے سے زیادہ ثقہ راوی کے مخالف بیان کرے۔ (اور اس میں ایسا ہی ہے۔) اور منکر روایت میں ضعیف راوی ثقہ راوی کی مخالفت کرتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 785   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1970  
´عورتوں کے درمیان باری مقرر کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کرتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ اندازی کرتے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1970]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
بیویوں سےمعاملات میں زیادہ سے زیادہ ممکن حد تک مساوات کاسلوک کرنا اور انصاف قائم رکھنا چاہیے۔

(2)
جب ایک چیز کےمستحق ایک سے زیادہ افراد ہوں اور وہ چیز قابل تقسیم نہ ہو تو قرعہ اندازی سےفیصلہ کیا جاتا سکتا ہے۔
قرعہ اندازی شرعاً جائز ہے بشرطیکہ معاملہ قمار (جوئے)
سے تعلق نہ رکھتا ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1970   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 912  
´بیویوں میں باری کی تقسیم کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سفر پر روانہ ہونے کا ارادہ فرماتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ اندازی کرتے۔ پس جس بیوی کے نام کا قرعہ نکلتا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہم سفر ہوتی۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 912»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الهبة، باب هبة المرأة لغير زوجها.....، حديث:2593، ومسلم، التوبة، باب في حديث الإفك.....، حديث:2770.»
تشریح:
اس حدیث سے کسی مبہم معاملے کے تصفیے کے لیے قرعہ اندازی کا ثبوت ملتا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 912   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3180  
´سورۃ النور سے بعض آیات کی تفسیر۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب میرے بارے میں افواہیں پھیلائی جانے لگیں جو پھیلائی گئیں، میں ان سے بےخبر تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور میرے تعلق سے ایک خطبہ دیا، آپ نے شہادتین پڑھیں، اللہ کے شایان شان تعریف و ثنا کی، اور حمد و صلاۃ کے بعد فرمایا: لوگو! ہمیں ان لوگوں کے بارے میں مشورہ دو جنہوں نے میری گھر والی پر تہمت لگائی ہے، قسم اللہ کی! میں نے اپنی بیوی میں کبھی کوئی برائی نہیں دیکھی، انہوں نے میری بیوی کو اس شخص کے ساتھ متہم کیا ہے جس کے بارے میں اللہ کی قسم! میں نے کبھی کوئی برائی نہیں جانی، وہ میرے گھر ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3180]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
میں نے کبھی کسی عورت کا آنچل تک نہیں سرکایا ہے چہ جائے گی میں ایسی گستاخی اورجسارت کروں۔

2؎:
صبر ہی بہتر ہے اور جو تم کہتے،
بیان کرتے ہو اس پر اللہ ہی معاون ومددگار ہے۔

3؎:
اصحاب فضل اور فراخی والے قسم نہ کھائیں (النور: 22)

4؎:
رشتہ والوں،
مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو نہ دیں گے۔
(النور: 22)

5؎:
کیا تمہیں پسند نہیں ہے کہ اللہ تمہیں بخش دے،
اللہ بخشنے والا مہربان ہے (النور: 22)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3180   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2637  
2637. حضرت ابن شہاب زہری سے روایت ہے، انھوں نے کہا: مجھے عروہ بن زبیر ؒ، سعید بن مسیب ؒ، علقمہ بن وقاص اور عبید اللہ بن عبد اللہ ؒ نے حضرت عائشہ ؓ کے واقعے کے متعلق بتایا۔ ان کی کچھ باتیں دوسری بیان کردہ باتوں کی تصدیق کرتی ہیں واقعہ یہ ہے کہ جب بہتان طرازوں نے حضرت عائشہ ؓ پر تہمت لگائی تو رسول اللہ ﷺ پر وحی آنے میں کچھ دیر ہو گئی۔ چنانچہ آپ نے حضرت علی ؓ اور حضرت اسامہ ؓ کو اپنی اہلیہ (حضرت عائشہ ؓ) کو چھوڑنے کے متعلق مشورے کے لیے بلایا تو حضرت اسامہ ؓ نے کہا: ہم تو ان کے متعلق خیرو بھلائی کے علاوہ کچھ نہیں جانتے، بہر حال وہ آپ کی بیوی ہیں حضرت بریرہ ؓ نے کہا: میں نے تو ان میں کوئی ایسی بات نہیں دیکھی جو ان کی شان کے خلاف ہو، (زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ) وہ ایک نوخیز (اور بھولی بھالی) لڑکی ہیں، اہل خانہ کا آٹا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2637]
حدیث حاشیہ:
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ پر تہمت کا واقعہ اسلامی تاریخ کا ایک مشہور ترین حادثہ ہے۔
جس میں آنحضرتﷺ اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ اور بہت سے اکابر صحابہ کو بہت تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔
آخر اس بارے مبں سورۃ نور نازل ہوئی اور اللہ پاک نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی پاک دامنی ظاہر کرنے کے سلسلے میں کئی شاندار بیانات دئیے۔
امام بخاری ؒ نے مطلب باب اس سے نکالا کہ حضرت اسامہ نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی تعدیل ان لفظوں میں بیان کی جو مقصد باب ہیں۔
اس الزام کا بانی عبد اللہ بن ابی منافق مردود تھا جو اسلام سے دل میں سخت کینہ رکھتا تھا۔
الزام ایک نہابت ہی پاک دامن صحابی صفوان بن معطل ؓکے ساتھ لگایا تھا جو نہایت نیک صالح اور مرد عفیف تھا۔
یہ اللہ کی راہ میں شہید ہوا۔
حدیث افک کی اور تفصیل اپنے مقام پر آئے گی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2637   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2637  
2637. حضرت ابن شہاب زہری سے روایت ہے، انھوں نے کہا: مجھے عروہ بن زبیر ؒ، سعید بن مسیب ؒ، علقمہ بن وقاص اور عبید اللہ بن عبد اللہ ؒ نے حضرت عائشہ ؓ کے واقعے کے متعلق بتایا۔ ان کی کچھ باتیں دوسری بیان کردہ باتوں کی تصدیق کرتی ہیں واقعہ یہ ہے کہ جب بہتان طرازوں نے حضرت عائشہ ؓ پر تہمت لگائی تو رسول اللہ ﷺ پر وحی آنے میں کچھ دیر ہو گئی۔ چنانچہ آپ نے حضرت علی ؓ اور حضرت اسامہ ؓ کو اپنی اہلیہ (حضرت عائشہ ؓ) کو چھوڑنے کے متعلق مشورے کے لیے بلایا تو حضرت اسامہ ؓ نے کہا: ہم تو ان کے متعلق خیرو بھلائی کے علاوہ کچھ نہیں جانتے، بہر حال وہ آپ کی بیوی ہیں حضرت بریرہ ؓ نے کہا: میں نے تو ان میں کوئی ایسی بات نہیں دیکھی جو ان کی شان کے خلاف ہو، (زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ) وہ ایک نوخیز (اور بھولی بھالی) لڑکی ہیں، اہل خانہ کا آٹا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2637]
حدیث حاشیہ:
(1)
تعديل کے معنی ہیں کہ کسی شخص کے متعلق صفائی دی جائے، یعنی وہ عادل ہے اور گواہی دینے کے قابل ہے۔
یہ شخص کسی معاملے میں مہتم نہیں اور نہ پہلے کسی جرم میں پکڑا گیا ہے۔
اس کی صفائی دینے کے متعلق اختلاف ہے کہ کس قسم کے الفاظ ادا کیے جائیں، کیا اتنا ہی کافی ہے کہ اسے ہم بھلا آدمی خیال کرتے ہیں؟ امام بخاری ؒ کا رجحان ہے کہ نیک چلن بیان کرنے کے لیے اتنے الفاظ ہی کافی ہیں جبکہ بعض حضرات کا خیال ہے کہ تعدیل بیان کرتے ہوئے اس بات کی وضاحت کی جائے کہ یہ عادل شخص ہے اور اس کی گواہی قبول ہے۔
اسلام نے مقدمات کا فیصلہ کرتے وقت گواہوں کے عادل اور نیک چلن ہونے پر بہت زور دیا ہے کیونکہ فیصلے کی بنیاد گواہ ہوتے ہیں۔
ان کی صفائی کا یہی طریقہ ہے کہ عدالت میں کوئی قابل اعتماد آدمی ان گواہوں کی نیک سیرتی بیان کر دے۔
دوسرا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حکومت خود گواہ کے متعلق اپنے ذرائع استعمال کرے کہ وہ کیسا آدمی ہے، پھر عدالت کو اس کے متعلق مطلع کیا جائے۔
(2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی کو نیک چلن بتانے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ عمومی طور پر اس کی نیک سیرتی سے مطلع کر دیا جائے جیسا کہ حضرت اسامہ ؓ نے حضرت عائشہ ؓ کے متعلق بیان کیا تھا ویسے بھی انسان کسی کے متعلق اپنے علم کے مطابق ہی خبر دے سکتا ہے۔
حقیقت حال سے کسی کو کون مطلع کر سکتا ہے کیونکہ باطنی امور کا علم تو اللہ کے پاس ہے، اس کے سوا اور کوئی نہیں جان سکتا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2637