سنن نسائي
كتاب الزاينة (من المجتبى) -- کتاب: زینت اور آرائش کے احکام و مسائل
59. بَابُ : اتِّخَاذِ الْجُمَّةِ
باب: سر پر بال رکھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 5234
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ، عَنْ أُمَيَّةَ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْبَرَاءِ، قَالَ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجِلًا مَرْبُوعًا عَرِيضَ مَا بَيْنَ الْمَنْكِبَيْنِ، كَثَّ اللِّحْيَةِ، تَعْلُوهُ حُمْرَةٌ جُمَّتُهُ إِلَى شَحْمَتَيْ أُذُنَيْهِ، لَقَدْ رَأَيْتُهُ فِي حُلَّةٍ حَمْرَاءَ مَا رَأَيْتُ أَحْسَنَ مِنْهُ".
براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم درمیانے قد کے، چوڑے مونڈھوں اور گھنی داڑھی والے تھے، آپ کے بدن پر کچھ سرخی ظاہر تھی، سر کے بال کان کی لو تک تھے ۱؎، میں نے آپ کو لال جوڑا پہنے ہوئے دیکھا اور آپ سے زیادہ کسی کو خوبصورت نہیں دیکھا۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المناقب 23 (3551)، صحیح مسلم/الفضائل 25 (2337)، سنن ابی داود/اللباس 21 (4072)، الترجل 9 (4184)، سنن الترمذی/الأدب 47 (2811)، (تحفة الأشراف: 1869)، مسند احمد (4/281)، ویأتي عند المؤلف: 5316 (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے بالوں کے بارے میں متعدد و مختلف روایات وارد ہیں: آدھے کان تک، کانوں کے لو تک، کانوں کے لووں اور کندھوں کے درمیان تک، اور کندھوں تک، اور ان سب روایات میں کوئی تعارض و اختلاف نہیں ہے، بلکہ یہ مختلف حالات کی روایات ہیں، کبھی آپ نے بال کٹوائے تو آدھے کانوں تک کر لیا، اور وہ بڑھ کر کان کے لو تک ہو گئے، اور اسی حالت میں چھوڑ دیئے تو اور بڑھ گئے، کبھی اتنے ہی پر کٹوا لیا اور کبھی چھوڑ دیا تو تو کندھوں کے اوپر یا کندھوں تک ہو گئے، اب جس نے جو دیکھا وہی بیان کر دیا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5234  
´سر پر بال رکھنے کا بیان۔`
براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم درمیانے قد کے، چوڑے مونڈھوں اور گھنی داڑھی والے تھے، آپ کے بدن پر کچھ سرخی ظاہر تھی، سر کے بال کان کی لو تک تھے ۱؎، میں نے آپ کو لال جوڑا پہنے ہوئے دیکھا اور آپ سے زیادہ کسی کو خوبصورت نہیں دیکھا۔ [سنن نسائي/كتاب الزاينة (من المجتبى)/حدیث: 5234]
اردو حاشہ:
(1) امام نسائی رحمہ اللہ نے جوعنوان قائم کیا اس کا مقصد یہ مسئلہ بیان کرنا ہے کہ مرد کے لیے زلفیں چھوڑنا اور لمبے بال رکھنا جائز ہے، خواہ وہ کندھوں تک چلی جائیں، تاہم کندھوں سے نیچے بال لٹکانا مردوں کے لیے درست نہیں کیونکہ یہ عورتوں کے ساتھ مشابہت ہے، نیز کندھوں سے نیچے بال لٹکانا رسو ل اللہ سے ثابت نہیں، حالانکہ آپ کے بال مبارک اکثر اوقات لمبے ہوتے تھے یعنی کانوں کی نزم کی نرم لو تک، کبھی کندھوں تک اور کبھی اس کے درمیان تک ہوا کرتے تھے۔
(2) پیارے رسول اکرم ﷺ کے مبارک بالوں کےبارے میں تفصیل حدیث:5056، 5065 میں ملاحظہ فرمائیے۔
(3) سرخ جوڑے میں عربی جوڑے کے لیے حلہ کا لفظ پولاجاتا ہے۔ یہ دو چادریں ہوتی تھیں۔ ایک تہبند کے طور پر باندھی جاتی تھی اور دوسری اوپر اوڑھ لی جاتی تھی۔ فداہ أبي ونفسي وروحي ﷺ.
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5234   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3599  
´مردوں کے سرخ لباس پہننے کا بیان۔`
براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ خوبصورت بال جھاڑے اور سنوارے ہوئے سرخ جوڑے میں ملبوس کسی کو نہیں دیکھا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب اللباس/حدیث: 3599]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
امام ابن قیم رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
حلھ کا مطلب تہبند اور اوڑھنے والی چادر ہے اور حلھ کا لفظ ان دونوں کے مجموعے پر بولا جاتا ہے۔
یہ سمجھنا غلط فہمی ہے کہ یہ جوڑا خالص سرخ رنگ کا تھا اورا س میں دوسرا رنگ شامل نہیں تھا۔
سرخ حلے سے مراد یمن کی دو چادریں ہوتی ہیں جو سرخ اور سیاہ دھاریوں کی صورت میں بنی ہوتی ہیں جس طرح یمن کی دوسری چادریں (لکیر دار)
ہوتی ہیں۔
یہ لباس اس نام (سرخ حلہ)
سے ان سرخ دھاریوں کی وجہ سے مشہور ہے ورنہ خالص سرخ (لباس)
سے تو سختی سے منع کیا گیا ہے البتہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے (صحیح البخاري، کتاب الصلاة، باب الصلاۃ فی الثوب الأحمر حدیث: 376)
میں ذکر کردہ حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے:
امام بخاری رحمہ اللہ اس عنوان کے ذریعے سے (سرخ کپڑا پہننے کے)
جواز کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں۔
گویا خالص سرخ رنگ کا جوڑا پہننا بھی مردوں کے لئے جائز ہے لیکن اگر کسی علاقے میں یہ رنگ عورتوں کے لئے مخصوص ہو چکا ہو تو پھر اس علاقے میں مردوں کے لئے اس سے اجتناب بہتر ہوگا کیونکہ عورتوں کی مشابہت اختیار کرنا بھی ممنوع ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3599   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1724  
´مردوں کے لیے سرخ کپڑا پہننے کے جواز کا بیان۔`
براء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے سرخ جوڑے میں کسی لمبے بال والے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خوبصورت نہیں دیکھا، آپ کے بال شانوں کو چھوتے تھے، آپ کے شانوں کے درمیان دوری تھی، آپ نہ کوتاہ قد تھے اور نہ لمبے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب اللباس/حدیث: 1724]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
سرخ لباس کی بابت حالات و ظروف کی رعایت ضروری ہے،
اگر یہ عورتوں کا مخصوص زیب وزینت والا لباس ہے جیسا کہ آج کے اس دور میں شادی کے موقع پر سرخ جوڑا دلہن کو خاص طور سے دیا جاتا ہے تو مردوں کا اس سے بچنا بہتر ہے،
خود نبی اکرم ﷺ کے اس سرخ جوڑے کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ کیسا تھا؟ خلاصہ اقوال یہ ہے کہ یہ سرخ جوڑا یا دیگر لال لباس جو آپ ﷺ پہنے تھے،
ان میں تانا اور بانا میں رنگوں کا اختلاف تھا،
بالکل خالص لال رنگ کے وہ جوڑے نہیں تھے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1724   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4072  
´لال رنگ کا استعمال جائز ہے۔`
براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال آپ کے دونوں کانوں کی لو تک پہنچتے تھے، میں نے آپ کو ایک سرخ جوڑے میں دیکھا اس سے زیادہ خوبصورت میں نے کوئی چیز کبھی نہیں دیکھی۔ [سنن ابي داود/كتاب اللباس /حدیث: 4072]
فوائد ومسائل:
نیچے آنے والی حدیث میں وضاحت ہے کہ آپ کا یہ سرخ جوڑا خالص سرخ رنگ کا تعلق نہیں تھا، بلکہ اس میں سرخ رنگ کی دھاریاں تھیں جسے برد کہا جاتا ہے۔
علامہ ابن القیم رحمتہ نے زادالمعاد میں اس کی یہی توجیہ پیش کی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4072