صحيح البخاري
كِتَاب الشَّهَادَاتِ -- کتاب: گواہوں کے متعلق مسائل کا بیان
8. بَابُ شَهَادَةِ الْقَاذِفِ وَالسَّارِقِ وَالزَّانِي:
باب: زنا کی تہمت لگانے والے اور چور اور زانی کی گواہی کا بیان۔
حدیث نمبر: 2649
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" أَنَّهُ أَمَرَ فِيمَنْ زَنَى، وَلَمْ يُحْصَنْ بِجَلْدِ مِائَةٍ، وَتَغْرِيبِ عَامٍ".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا عقیل سے، وہ ابن شہاب سے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ نے اور ان سے زید بن خالد رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کے لیے جو شادی شدہ نہ ہوں اور زنا کریں۔ یہ حکم دیا تھا کہ انہیں سو کوڑے لگائے جائیں اور ایک سال کے لیے جلا وطن کر دیا جائے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2649  
2649. حضرت زید بن خالد ؓ سے روایت ہے، وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے غیرشادی شدہ زانی کے متعلق سو کوڑے لگانے اور ایک سال تک ملک بدر کرنے کا حکم دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2649]
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری ؒ کامقصد اس روایت کے لانے سے یہ ہے کہ جب حدیث میں غیر محصن کی سزا یہی مذکور ہوئی کہ سوکوڑے مارو اور ایک سال کے لیے جلاوطن کرو اور توبہ کا علحدہ ذکر نہیں کیا تو معلوم ہوا کہ اس کا ایک سال تک بے وطن رہنا یہی توبہ ہے۔
اس کے بعد اس کی شہادت قبول ہوگی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2649   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2649  
2649. حضرت زید بن خالد ؓ سے روایت ہے، وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے غیرشادی شدہ زانی کے متعلق سو کوڑے لگانے اور ایک سال تک ملک بدر کرنے کا حکم دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2649]
حدیث حاشیہ:
(1)
زنا کرنے سے بھی انسان کی عدالت مجروح ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ گواہی کے قابل نہیں رہتا۔
جب اس پر گناہ کی حد لگ جائے تو یہ اس جرم کا کفارہ ہے اور وہ گواہی کے قابل ہو جاتا ہے۔
(2)
عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے زانی پر صرف حد لگائی ہے کہ اسے سو کوڑے مارے ہیں اور ایک سال کے لیے وطن سے نکال دیا۔
اس کے علاوہ علیحدہ طور پر توبہ وغیرہ کا ذکر احادیث میں منقول نہیں۔
معلوم ہوا کہ ایک سال تک جلا وطن رہنا ہی اس کی توبہ ہے۔
جلا وطن کرنے کا اصل مقصد اس شخص کو ایک سال کے لیے ماحول سے کاٹ دینا ہے، سزا بھگتنے کے بعد اس کی گواہی قبول ہو گی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2649