سنن نسائي
كتاب آداب القضاة -- کتاب: قاضیوں اور قضا کے آداب و احکام اور مسائل
37. بَابُ : كَيْفَ يَسْتَحْلِفُ الْحَاكِمُ
باب: حاکم قسم (حلف) کیسے لے؟
حدیث نمبر: 5429
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَفْصٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" رَأَى عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَام رَجُلًا يَسْرِقُ، فَقَالَ لَهُ: أَسَرَقْتَ؟ قَالَ: لَا , وَاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ، قَالَ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَام: آمَنْتُ بِاللَّهِ وَكَذَّبْتُ بَصَرِي".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عیسیٰ بن مریم علیہ السلام نے ایک شخص کو چوری کرتے دیکھا، تو اس سے پوچھا: کیا تم نے چوری کی؟ وہ بولا: نہیں، اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ۱؎، عیسیٰ علیہ السلام نے کہا: میں نے یقین کیا اللہ پر اور جھوٹا سمجھا اپنی آنکھ کو۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الٔلنبیاء 48 (3444 تعلیقًا)، (تحفة الٔاشراف: 14223)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الفضائل40 (2368)، سنن ابن ماجہ/الکفارات 4 (2102)، مسند احمد (2/314، 383) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں یہی قسم کے الفاظ ہیں، ان الفاظ کے ساتھ بھی کبھی کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قسم کھایا یا لیا کرتے تھے، دونوں حدیثوں میں مذکور دونوں الفاظ کے علاوہ بھی کچھ الفاظ کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قسم کھایا یا کرتے تھے جیسے «لا ومصرف القلوب»، «لا ومقلب القلوب» وغیرہ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5429  
´حاکم قسم (حلف) کیسے لے؟`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عیسیٰ بن مریم علیہ السلام نے ایک شخص کو چوری کرتے دیکھا، تو اس سے پوچھا: کیا تم نے چوری کی؟ وہ بولا: نہیں، اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ۱؎، عیسیٰ علیہ السلام نے کہا: میں نے یقین کیا اللہ پر اور جھوٹا سمجھا اپنی آنکھ کو۔ [سنن نسائي/كتاب آداب القضاة/حدیث: 5429]
اردو حاشہ:
(1) جھٹلاتا ہوں مقصد یہ ہے جب کسی سے قسم لی جائے تو اس کی قسم مان لینی چاہیے۔ اپنی بات پر نہیں اڑنا چاہیے۔ کوئی جھوٹی کھائے گا تو خود بھگتے گا۔ مذکورہ واقعہ میں ممکن ہے وہ اپنی ہی چیز اٹھا رہا ہو یا دوسرے کی چیز اس کی اجازت سے اٹھا رہا ہو۔ یا صرف چیز پکڑ کر دیکھنا مقصد ہو نہ کہ اٹھا کر لے جانا وغیرہ۔ ایسے كئ احتمالات ہوسکتے ہیں۔ گویا ظاہر دیکھنے میں چوری کی صورت تھی۔ قسم سے حقیقت واضح ہو گئ۔ (یہ سب کچھ تب ہے اگر وہ اپنی قسم میں سچا تھا)۔ چور نے اللہ کے نام کی قسم کھا کر اپنی براءت کا اظہار کیا‘ اس لیے سیدناعیسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے نام کی لاج رکھتے ہوئے اسے سچا سمجھا اور اپنی آنکھ کو جھوٹا قراردیا۔ واللہ أعلم۔
(2) ہر جگہ عیسیٰ علیہ السلام کو عیسیٰ ابن مریم کہنا دلیل ہے کہ وہ بن باپ کے پیدا ہوئے تا کہ لوگوں کے لیے اپنے صدق پر معجزہ بنیں۔
(3) حدیث میں قسم مؤ کد و مغلظ ہے۔ گویا ایسی قسم بھی لی جا سکتی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5429   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2102  
´اللہ کی قسم کھا کر کوئی بات کہی جائے تو اس کو مان لینے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عیسیٰ بن مریم علیہ السلام نے ایک شخص کو چوری کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: تم نے چوری کی ہے؟ اس نے کہا: نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، عیسیٰ علیہ السلام نے کہا: میں اللہ پر ایمان لایا، اور میں نے اپنی آنکھ کو جھٹلا دیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2102]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
  یہ مومن کی قسم پر اعتبار کرنے کی مثال ہے کہ اس کی قسم پر اپنی آنکھوں دیکھی چیز کو رد کر دیا۔

(2)
  ممکن ہے وہ چیز اسی شخص کی ہو جو اسے لے رہا تھا لیکن کسی خاص وجہ سے اس نے چھپ کر اٹھائی ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2102