صحيح البخاري
كِتَاب الشَّهَادَاتِ -- کتاب: گواہوں کے متعلق مسائل کا بیان
20. بَابُ الْيَمِينُ عَلَى الْمُدَّعَى عَلَيْهِ، فِي الأَمْوَالِ وَالْحُدُودِ:
باب: دیوانی اور فوجداری دونوں مقدموں میں مدعیٰ علیہ سے قسم لینا۔
حدیث نمبر: 2669
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ:" مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ يَسْتَحِقُّ بِهَا مَالًا لَقِيَ اللَّهَ وَهُوَ عَلَيْهِ غَضْبَانُ، ثُمَّ أَنْزَلَ اللَّهُ تَصْدِيقَ ذَلِكَ إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ إِلَى عَذَابٌ أَلِيمٌ سورة آل عمران آية 77، ثُمَّ إِنَّ الْأَشْعَثَ بْنَ قَيْسٍ خَرَجَ إِلَيْنَا، فَقَالَ: مَا يُحَدِّثُكُمْ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ، فَحَدَّثْنَاهُ بِمَا قَالَ، فَقَالَ: صَدَقَ، لَفِيَّ أُنْزِلَتْ كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَ رَجُلٍ خُصُومَةٌ فِي شَيْءٍ، فَاخْتَصَمْنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: شَاهِدَاكَ أَوْ يَمِينُهُ؟ فَقُلْتُ لَهُ: إِنَّهُ إِذًا يَحْلِفُ وَلَا يُبَالِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ يَسْتَحِقُّ بِهَا مَالًا وَهُوَ فِيهَا فَاجِرٌ، لَقِيَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَهُوَ عَلَيْهِ غَضْبَانُ"، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَصْدِيقَ ذَلِكَ، ثُمَّ اقْتَرَأَ هَذِهِ الْآيَةَ.
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا منصور سے، ان سے ابووائل نے بیان کیا کہ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جو شخص (جھوٹی) قسم کسی کا مال حاصل کرنے کے لیے کھائے گا تو اللہ تعالیٰ سے وہ اس حال میں ملے گا کہ اللہ پاک اس پر غضبناک ہو گا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے (اس حدیث کی) تصدیق کے لیے یہ آیت نازل فرمائی «إن الذين يشترون بعهد الله وأيمانهم‏» جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں سے تھوڑی پونجی خریدتے ہیں۔ «عذاب أليم‏» تک۔ پھر اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ ہماری طرف تشریف لائے اور پوچھنے لگے کہ ابوعبدالرحمٰن (عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ) تم سے کون سی حدیث بیان کر رہے تھے۔ ہم نے ان کی یہی حدیث بیان کی تو انہوں نے کہا کہ انہوں نے صحیح بیان کی، یہ آیت میرے ہی بارے میں نازل ہوئی تھی۔ میرا ایک شخص سے جھگڑا تھا۔ ہم اپنا مقدمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یا تم دو گواہ لاؤ، ورنہ اس کی قسم پر فیصلہ ہو گا۔ میں نے کہا کہ (گواہ میرے پاس نہیں ہیں لیکن اگر فیصلہ اس کی قسم پر ہوا) پھر تو یہ ضرور ہی قسم کھا لے گا اور کوئی پروانہ کرے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا جو شخص بھی کسی کا مال لینے کے لیے (جھوٹی) قسم کھائے تو اللہ تعالیٰ سے وہ اس حال میں ملے گا کہ وہ اس پر غضبناک ہو گا۔ اس کی تصدیق میں اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالا آیت نازل فرمائی تھی، پھر انہوں نے یہی آیت تلاوت کی۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2669  
2669. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: جو شخص کسی کامال ہتھیانے کے لیے جھوٹی قسم اٹھائے گا تو اللہ تعالیٰ سے اس حالت میں ملاقات کرے گا کہ وہ اس پر غضبناک ہوگا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی تصدیق میں یہ آیت اتاری: جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو۔۔۔ ان کے لیے المناک عذاب ہو گا۔ پھر اشعث بن قیس ؓ ہمارے پاس تشریف لائے اور انھوں نے دریافت کیا کہ ابو عبدالرحمان ؓ تمھیں کیا حدیث بیان کررہے تھے؟جو کچھ انھوں نے فرمایا تھا ہم نے انھیں بیان کیا۔ وہ فرمانے لگے: انھوں نے سچ فرمایا ہے۔ میرے باے میں ہی یہ آیت اتری تھی۔ ہوا یوں کہ میرے اور ایک (یہودی) آدمی کے درمیان کسی چیز کے متعلق جھگڑا تھا۔ ہم اس مقدمے کو رسول اللہ ﷺ کے پاس لے گئے تو آپ نے فرمایا: تمہارے دو گواہ دعویٰ ثابت کریں گے یا وہ قسم ا ٹھائے گا۔ میں نے عرض کیا: یہ تو قسم اٹھا لے گا اور اس کی کوئی پروا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2669]
حدیث حاشیہ:
بعض حنفیہ نے اس حدیث سے یہ دلیل لی ہے کہ یمین مع الشاهد پر فیصلہ کرنا درست نہیں اور یہ استدلال فاسد ہے کہ یمین مع الشاهد کی شق میں داخل ہے تو مطلب یہ ہے کہ دو گواہ لا اس طرح سے کہ دو مرد ہوں یا ایک مرد اور دو عورتیں یا ایک مرد اور ایک قسم ورنہ مدعیٰ علیہ سے قسم لے۔
یہ حنفیہ اتنا غور نہیں کرتے کہ اللہ اور پیغمبر کے کلام کو باہم ملانا بہتر ہے یا ان میں مخالفت ڈالنا، ایک پر عمل کرنا، ایک کو ترک کرنا۔
(وحیدی)
الحمد للہ کہ حرم نبوی مدینۃ المنورہ میں 9 اپریل 1970 ءکو حضور ﷺ کے مواجہ شریف میں بیٹھ کر یہاں تک متن کو بغور پڑھا گیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2669   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2669  
2669. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: جو شخص کسی کامال ہتھیانے کے لیے جھوٹی قسم اٹھائے گا تو اللہ تعالیٰ سے اس حالت میں ملاقات کرے گا کہ وہ اس پر غضبناک ہوگا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی تصدیق میں یہ آیت اتاری: جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو۔۔۔ ان کے لیے المناک عذاب ہو گا۔ پھر اشعث بن قیس ؓ ہمارے پاس تشریف لائے اور انھوں نے دریافت کیا کہ ابو عبدالرحمان ؓ تمھیں کیا حدیث بیان کررہے تھے؟جو کچھ انھوں نے فرمایا تھا ہم نے انھیں بیان کیا۔ وہ فرمانے لگے: انھوں نے سچ فرمایا ہے۔ میرے باے میں ہی یہ آیت اتری تھی۔ ہوا یوں کہ میرے اور ایک (یہودی) آدمی کے درمیان کسی چیز کے متعلق جھگڑا تھا۔ ہم اس مقدمے کو رسول اللہ ﷺ کے پاس لے گئے تو آپ نے فرمایا: تمہارے دو گواہ دعویٰ ثابت کریں گے یا وہ قسم ا ٹھائے گا۔ میں نے عرض کیا: یہ تو قسم اٹھا لے گا اور اس کی کوئی پروا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2669]
حدیث حاشیہ:
(1)
مذکورہ بالا مقدمے میں حضرت اشعث بن قیس ؓ مدعی تھے تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں فرمایا:
تمہیں اپنا دعویٰ ثابت کرنے کے لیے دو گواہ پیش کرنا ہوں گے، بصورت دیگر مدعا علیہ قسم اٹھائے گا اور مقدمہ اس کے حق میں ہو گا۔
بہرحال قسم اٹھانا مدعا علیہ کے ذمے ہے بشرطیکہ مدعی اپنے دعوے کے ثبوت کے لیے دو گواہ پیش نہ کر سکے، یا کم از کم ایک گواہ اور قسم دے گا۔
اگر ایسا نہ کر سکا تو مدعا علیہ قسم اٹھا کر بری ہو جائے گا۔
(2)
بعض لوگ يمين استظهار کے قائل ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جب مدعی اپنا دعویٰ گواہوں سے ثابت کر دے تو قاضی مدعی سے قسم لے کہ اس کے گواہوں نے جو ثابت کیا ہے وہ مبنی بر حقیقت ہے، اس میں کوئی دھوکا فریب نہیں ہے۔
قاضی شریح، امام نخعی اور اوزاعی وغیرہ اس کے قائل ہیں لیکن جمہور اہل علم اس سے اتفاق نہیں کرتے کیونکہ قرآن و سنت سے اس کا ثبوت نہیں ملتا۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2669