سنن نسائي
كتاب الأشربة -- کتاب: مشروبات (پینے والی چیزوں) کے احکام و مسائل
36. بَابُ : ذِكْرِ الدِّلاَلَةِ عَلَى النَّهْىِ لِلْمَوْصُوفِ مِنَ الأَوْعِيَةِ
باب: سابقہ مذکور برتنوں کے استعمال کے ممنوع ہونے کے دلائل کا بیان کہ ممانعت تادیبی نہیں بلکہ حتمی تھی۔
حدیث نمبر: 5647
أَخْبَرَنَا سُوَيْدٌ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ، عَنْ ابْنِ عَمٍّ لَهَا، يُقَالُ: لَهُ أَنَسٌ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أَلَمْ يَقُلِ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا سورة الحشر آية 7؟ , قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: أَلَمْ يَقُلِ اللَّهُ: وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ سورة الأحزاب آية 36؟ , قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: فَإِنِّي" أَشْهَدُ أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ النَّقِيرِ، وَالْمُقَيَّرِ، وَالدُّبَّاءِ، وَالْحَنْتَمِ".
انس (قیسی بصریٰ) کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: کیا اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا: «ما آتاكم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوا» جو کچھ تمہیں رسول دے، اسے لے لو اور جس سے تمہیں روکے، اس سے رک جاؤ (الحشر: ۷) میں نے کہا: کیوں نہیں۔ انہوں نے کہا: کیا یہ اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا: «وما كان لمؤمن ولا مؤمنة إذا قضى اللہ ورسوله أمرا أن يكون لهم الخيرة من أمرهم‏» کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو جب اللہ اور اس کے رسول کسی معاملے میں فیصلہ کر دیں اپنے معاملات میں کوئی حق نہیں رہتا (الاحزاب: ۳۶) میں نے کہا: کیوں نہیں، انہوں نے کہا: تو میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لکڑی کے برتن، روغنی برتن، کدو کی تونبی اور لاکھ برتن سے منع فرمایا ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 5363) (ضعیف) (اس کے رواة انس قیسی اور اسماء قیسیہ لین الحدیث ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3690  
´شراب میں استعمال ہونے والے برتنوں کا بیان۔`
ابن عمر اور ابن عباس کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمبی، سبز رنگ کے برتن، تارکول ملے ہوئے برتن اور لکڑی کے برتن ۱؎ سے منع فرمایا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الأشربة /حدیث: 3690]
فوائد ومسائل:
فائدہ: اسلام سے پہلے لوگ جن برتنوں میں شراب بنایا کرتھے تھے۔
رسول اللہ ﷺنے ان میں نبیذ (پھلوں کھجوروں کشمش اوردیگر خشک یا تر پھلوں کا پانی کے ذریعے بنایا ہوا آمیزہ) جو بطور مشروب استعمال ہوتا تھا بنا کر پینے سے منع فرما دیا اس غرض سے عموما چار قسم کے برتن استعمال کئے جاتے ہیں۔


الدباء بڑے سائز کے کدو جب خشک ہوجاتے تو ان کے اندر کا گودا وغیرہ نکال کر سخت خول کو برتن کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔
افریقہ کے ملکوں میں آج بھی اس کا رواج ہے۔
وہاں ایسے کدو بھی پائے جاتے ہیں جو نیچے سے گول ہوتے ہیں۔
اور اوپر کی طرف ان کی بہت لمبی گردن ہوتی ہے۔
ان کو بھی اند ر سے خالی کرکےمشروب وغیرہ کے برتن کے طور پراستعمال کیا جاتا ہے۔
یہ بالکل صراحی کی شکل کا ہوتا ہے۔
فارسی شاعری میں اس لئے کدو کا لفظ شراب کے برتن یا صراحی کے لئے استعمال ہوتا ہے۔
اس کے باہر کی سطح سخت اور نم پروف جبکہ اندر کی سطح اسفنجی ہوتی ہے اور اس کو شراب کےلئے استعمال کیا جائے۔
تو دھونے کے باوجود اس کی اندرونی اسفنجی سطح میں خامرہ یعنی وہ مادہ جو نبیذ کے رس وغیرہ میں خمیر اٹھانے کا سبب بن جاتا ہے۔
موجود ہوتا ہے۔
اس لئے ایسے برتنوں میں پھلوں کا رس تیار کرنے یا رکھنے سے منع کردیا گیا ہے۔


حنتم شراب بنانے کی غرض سے مٹی کےبڑے بڑے برتنوں کو اس طرح بنایا جاتا تھا کہ کہ ان کی مٹی گوندھتے وقت اس میں خون اور بال ملا دیے جاتے۔
اس سے ان برتنوں کا رنگ سیاہی مائل سبز ہوجاتا تھا۔
غرض یہ ہوتی تھی کہ اس کی سطح سے ہوا کا گزر بند ہوجائے۔
اور تخمیرکا عمل تیز اورشدید ہوجائے۔
دیکھئے۔
(فتح الباري، کتاب الأشربة، باب ترخیص النبي ﷺ في الأوعیة)ایسے برتنوں کے اندرہوا کی بندش کو یقینی بنانے کےلئے کوئی روغن وغیرہ بھی لگا دیا جاتا تھا۔
یہ برتن اپنی ساخت میں گندے اورغلیظ ہونے کے علاوہ اندرونی سطح پر شراب کے خامروں کو چھپائے رکھتے تھے۔
جن کی وجہ سے اس میں بھی تیزی سے تخمیر کا عمل شروع ہوجاتا تھا۔


مزقت وہ برتن جس کے اندرروغن زفت ملایا گیا ہو۔
یہ تارکول سے ملتا جلتا معدنی روغن ہے۔
(لسان العرب) زفت ملنے کا مقصد بھی وہی تھا کہ ہوا کا گزر نہ ہو اور شراب سازی کےلئے عمل تخمیر جلد اور شدت سے شروع ہوجائے۔
یہ بھی دوسرے برتنوں کی طرح شراب کے خامروں کا حامل ہوتا تھا۔
اس کے علاہ روغن ملنے کی وجہ سے چیچیا اور ناصاف بھی ہوتا تھا۔


نقیر کھجور کے تنے کو اندر سے کھوکھلا کر تے، لیکن اس کی جڑٰیں اس طرح زمین میں رہنے دیتے ظاہر ہے کہ اس کا صحیح طور پردھونا ممکن نہ تھا۔
نیز اس کے اندرونی سطح پر شراب کے خامرے اور دوسری گندگی بھی موجود رہتی تھی۔
اس میں پھلوں وغیرہ کا مشروب (نبیذ بنایا جاتا۔
)
تو وہ جلد شراب میں تبدیل ہوجاتا تھا۔
اس کا استعمال بھی ممنوع قرار دیا گیا۔
عرب ان برتنوں میں شراب کے علاوہ نبیز بھی بناتے تھے۔
اور اس میں بہت جلد ترشی آجاتی تھی۔
چونکہ یہ لوگ پہلے ان برتنوں کے مشروبات اورشراب کے عادی تھے تو انہیں معمولی نشے کا احساس بھی نہ ہوتا تھا۔
اس لئے حرمت شراب کی ابتداء میں ان برتنوں کے استعمال سے بھی منع فرما دیا گیا۔
مگر بعد ازاں اجازت دے دی گئی تھی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3690