سنن نسائي
كتاب الأشربة -- کتاب: مشروبات (پینے والی چیزوں) کے احکام و مسائل
37. بَابُ : تَفْسِيرِ الأَوْعِيَةِ
باب: ممنوع برتنوں کی شرح و تفسیر۔
حدیث نمبر: 5648
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَزِيدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ أَسَدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ، قَالَ: سَمِعْتُ زَاذَانَ، قَالَ: سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، قُلْتُ: حَدِّثْنِي بِشَيْءٍ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْأَوْعِيَةِ وَفَسِّرْهُ، قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْحَنْتَمِ، وَهُوَ الَّذِي تُسَمُّونَهُ أَنْتُمُ الْجَرَّةَ، وَنَهَى عَنِ الدُّبَّاءِ، وَهُوَ الَّذِي تُسَمُّونَهُ أَنْتُمُ الْقَرْعَ، وَنَهَى عَنِ النَّقِيرِ، وَهِيَ النَّخْلَةُ يَنْقُرُونَهَا، وَنَهَى عَنِ الْمُزَفَّتِ، وَهُوَ الْمُقَيَّرُ".
زاذان کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے درخواست کی کہ مجھ سے کوئی ایسی بات بیان کیجئیے جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے برتنوں کے سلسلے میں سنی ہو اور اس کی شرح و تفسیر بھی بیان کیجئے تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لاکھی برتن سے روکا اور یہ وہی ہے جسے تم «جرہ» (گھڑا) کہتے ہو۔ «دباء» سے روکا، جسے تم «قرع» (کدو کی تُو نبی) کہتے ہو، «نقیر» سے روکا اور یہ کھجور کے درخت کی جڑ ہے جسے تم کھودتے ہو (اور برتن بنا لیتے ہو) اور «مزفت» جو «مقیر» ۱؎ ہے اس سے بھی روکا۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الّٔشربة 6 (1997)، سنن الترمذی/الْٔشربة 5 (1868)، (تحفة الأشراف: 6716)، مسند احمد (2/56) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: پینٹ کیا ہوا روغن چڑھایا ہوا برتن۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 397  
´کدو اور مرتبان میں نبیذ بنانے کی ممانعت ہے`
«. . . 248- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خطب الناس فى بعض مغازيه، فقال عبد الله بن عمر: فأقبلت نحوه، فانصرف قبل أن أبلغه، فسألت ماذا قال: فقالوا: نهى أن ينبذ فى الدباء والمزفت. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی غزوے میں خطبہ دیا تو عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلا پھر میرے پہنچنے سے پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبے سے فارغ ہو گئے تو میں نے پوچھا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کدو کے برتن اور روغنی مرتبان میں نبیذ بنانے سے منع فرمایا ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 397]

تخریج الحدیث: [وأخرجه مسلم 1997/48، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ برائی کی طرف لے جانے والے ذرائع کا بھی سدِباب کرنا چاہئے۔
➋ تمام صحابہ عدول ہیں لہٰذا صحابی کا مجہول ہونا مضر نہیں ہے بلکہ نامعلوم صحابی تک اگر سن صحیح ہو تو حدیث حجت ہوتی ہے۔
➌ مختلف مقامات و اوقات میں لوگوں کی اصلاح کے لئے درس و تدریس جاری رکھنا مسنون ہے۔
➍ بعض علماء اس ممانعت کو منسوخ سمجھتے ہیں۔ ➎ ذوق و انہماک سے وعظ و خطبہ سننا چاہئے اور علم و عمل کے جذبے سے سرشار رہنا چاہئے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 248   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5648  
´ممنوع برتنوں کی شرح و تفسیر۔`
زاذان کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے درخواست کی کہ مجھ سے کوئی ایسی بات بیان کیجئیے جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے برتنوں کے سلسلے میں سنی ہو اور اس کی شرح و تفسیر بھی بیان کیجئے تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لاکھی برتن سے روکا اور یہ وہی ہے جسے تم «جرہ» (گھڑا) کہتے ہو۔ «دباء» سے روکا، جسے تم «قرع» (کدو کی تُو نبی) کہتے ہو، «نقیر» سے روکا اور یہ کھجور کے درخت کی جڑ ہے جسے تم کھودتے ہو (اور برتن بنا لیتے [سنن نسائي/كتاب الأشربة/حدیث: 5648]
اردو حاشہ:
مذکورہ برتنوں کی حیثیت کےمتعلق محقق بات تو حدیث: 5646 کے تحت ذکر ہو چکی ہے مگر بعض ائمہ مجتہدین،مثلا: امام احمد اور امام اسحاقؒ اس بات کے قائل ہیں جو حضرت ابن عمر اور ابن عباس ؓ کےمذکورہ بالا فرامین سے ظاہر ہوتی ہے کہ ان برتنوں میں اب بھی نبیذ بنانا حرام ہے اور ان برتنوں میں بنائی ہوئی نبیذ پینی منع ہے۔حضرت ابن عباس اور حضرت ابن عمر ؓ کا مسلک بھی یہی معلوم ہوتا ہے مگر اس سے بعض دوسری روایات متروک ہو جائیں گی جو نسخ پر دلالت کرتی ہیں۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5648   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1867  
´مٹکے کی نبیذ کا بیان۔`
طاؤس سے روایت ہے کہ ایک آدمی ابن عمر رضی الله عنہما کے پاس آیا اور پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹکے کی نبیذ سے منع فرمایا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں ۱؎، طاؤس کہتے ہیں: اللہ کی قسم میں نے ان سے یہ بات سنی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الأشربة/حدیث: 1867]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
لیکن شرط یہ ہے کہ وہ نشہ آور ہوجائے،
نبیذ اگر نشہ آور نہیں ہے تو حلال ہے،
نبیذ وہ شراب ہے جو کھجور،
کشمش،
انگور،
شہد،
گیہوں اور جووغیرہ سے تیار کی جاتی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1867   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3691  
´شراب میں استعمال ہونے والے برتنوں کا بیان۔`
سعید بن جبیر کہتے ہیں میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «جر» (مٹی کا گھڑا) میں بنائی ہوئی نبیذ کو حرام قرار دیا ہے تو میں ان کی یہ بات سن کر گھبرایا ہوا نکلا اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آ کر کہا: کیا آپ نے سنا نہیں ابن عمر رضی اللہ عنہما کیا کہتے ہیں؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: کیا بات ہے؟ میں نے کہا: وہ یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «جر» کے نبیذ کو حرام قرار دیا ہے، انہوں نے کہا: وہ سچ کہتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «جر» کے نبیذ کو حرام قرار دیا ہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الأشربة /حدیث: 3691]
فوائد ومسائل:

رسول اللہ ﷺ کا کسی چیز کو حلال یا حرام کرنا ان کی اپنی مرضی سے ہرگز نہ تھا، بلکہ یہ سب وحی کی بنا پرہوتا تھا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
(وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ﴿٣﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ) (النجم۔

4)


مٹی کے سے بنے برتنوں میں وہ برتن بھی شامل ہیں۔
جن کا اوپر ذکرہوا ہے۔
جس برتن میں کسی طرح کا روغن ملا جاتا تھا۔
خواہ سبز رنگ کا ہوتا یا سفید وغیرہ سب منع تھے۔
(صحیح البخاري، الأشربة،حدیث: 5596)

خیال رہے کہ نبیذ وہ مشروب ہوتا ہے۔
کہ کھجور یا کشمش وغیرہ کو پانی میں بھگو دیتے ہیں، چند گھنٹوں کے بعد پانی میٹھا ہوجاتا ہے۔
اور استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ مشروب نبیذ کہلاتا ہے۔
اسے صرف اتنا وقت رکھنے کی اجازت ہے کہ وہ اصل حالت میں رہے سردیوں میں تین دن تک اور گرمیوں میں صرف ایک دن تک۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3691   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3696  
´شراب میں استعمال ہونے والے برتنوں کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں وفد عبدالقیس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم کس برتن میں پیئیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دباء، مزفت اور نقیر میں مت پیو، اور تم نبیذ مشکیزوں میں بنایا کرو انہوں نے کہا: اللہ کے رسول اگر مشکیزے میں تیزی آ جائے تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس میں پانی ڈال دیا کرو وفد کے لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! (اگر پھر بھی تیزی نہ جائے تو) آپ نے ان سے تیسری یا چوتھی مرتبہ فرمایا: اسے بہا دو ۱؎ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ نے مجھ پر شراب، جوا، اور ڈھولک ک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الأشربة /حدیث: 3696]
فوائد ومسائل:

مشکیزےمیں ڈال ہوئے رس میں یہ شدت کسی خامرے کی آمیزش کے بغیر فطری طور پر پیدا ہوتی تھی۔


تیسری یا چوتھی بار پوچھنے سے پتہ چلا کہ وہ غیرمعمولی شدت ہے جو زیادہ وقت گزرنے کے ساتھ پیدا ہوتی ہے۔


جہاں شراب ایک مادی مشروب حرام ہے۔
کیونکہ عقل پر پردہ ڈال دیتی ہے، وہاں موسیقی ایک صوتی چیز ہے۔
جو بھلے چنگےآدمی کی عقل کو مائوف کر دیتی ہے۔
آلات موسیقی میں سے ایک ڈھول بھی ہے۔
جو حرام ہے۔
البتہ دف حلال ہے۔
جس پر ایک طرف سے چمڑا منڈا ہوتا ہے۔
اور دوسری طرف سے خالی ہوتا ہے۔
اسے ہاتھ سے بجایا جاتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3696