سنن نسائي
كتاب الأشربة -- کتاب: مشروبات (پینے والی چیزوں) کے احکام و مسائل
48. بَابُ : ذِكْرِ الأَخْبَارِ الَّتِي اعْتَلَّ بِهَا مَنْ أَبَاحَ شَرَابَ الْمُسْكِرِ
باب: نشہ لانے والی شراب کو مباح اور جائز قرار دینے کی احادیث کا ذکر۔
حدیث نمبر: 5695
أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَتَّابٍ وَهُوَ سَهْلُ بْنُ حَمَّادٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا قُرَّةُ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو جَمْرَةَ نَصْرٌ , قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ: إِنَّ جَدَّةً لِي تَنْبِذُ نَبِيذًا فِي جَرٍّ أَشْرَبُهُ حُلْوًا , إِنْ أَكْثَرْتُ مِنْهُ فَجَالَسْتُ الْقَوْمَ خَشِيتُ أَنْ أَفْتَضِحَ , فَقَالَ: قَدِمَ وَفْدُ عَبْدِ الْقَيْسِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ:" مَرْحَبًا بِالْوَفْدِ لَيْسَ بِالْخَزَايَا , وَلَا النَّادِمِينَ" , قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّ بَيْنَنَا وَبَيْنَكَ الْمُشْرِكِينَ , وَإِنَّا لَا نَصِلُ إِلَيْكَ إِلَّا فِي أَشْهُرِ الْحُرُمِ , فَحَدِّثْنَا بِأَمْرٍ إِنْ عَمِلْنَا بِهِ , دَخَلْنَا الْجَنَّةَ وَنَدْعُو بِهِ مَنْ وَرَاءَنَا , قَالَ:" آمُرُكُمْ بِثَلَاثٍ , وَأَنْهَاكُمْ عَنْ أَرْبَعٍ: آمُرُكُمْ بِالْإِيمَانِ بِاللَّهِ , وَهَلْ تَدْرُونَ مَا الْإِيمَانُ بِاللَّهِ؟" , قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ , قَالَ:" شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ , وَإِقَامُ الصَّلَاةِ , وَإِيتَاءُ الزَّكَاةِ , وَأَنْ تُعْطُوا مِنَ الْمَغَانِمِ الْخُمُسَ , وَأَنْهَاكُمْ عَنْ أَرْبَعٍ: عَمَّا يُنْبَذُ فِي الدُّبَّاءِ , وَالنَّقِيرِ , وَالْحَنْتَمِ , وَالْمُزَفَّتِ".
ابوجمرہ نصر بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: میری دادی میرے لیے ایک گھڑے میں میٹھی نبیذ تیار کرتی ہیں جسے میں پیتا ہوں۔ اگر میں اسے زیادہ پی لوں اور لوگوں میں بیٹھوں تو اندیشہ لگا رہتا ہے کہ کہیں رسوائی نہ ہو جائے، وہ بولے: عبدالقیس کا ایک وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا: خوش آمدید ان لوگوں کو جو نہ رسوا ہوئے، نہ شرمندہ، وہ بولے: اللہ کے رسول! ہمارے اور آپ کے درمیان کفار و مشرکین حائل ہیں، اس لیے ہم آپ کے پاس صرف حرمت والے مہینوں ہی میں پہنچ سکتے ہیں، لہٰذا آپ ایسی بات بتا دیجئیے کہ اگر ہم اس پر عمل کریں تو جنت میں داخل ہوں۔ اور ہمارے پیچھے جو لوگ (گھروں پر) رہ گئے ہیں، انہیں اس کی دعوت دیں۔ آپ نے فرمایا: میں تمہیں تین باتوں کا حکم دیتا ہوں اور چار باتوں سے روکتا ہوں: میں تمہیں اللہ پر ایمان لانے کا حکم دیتا ہوں، کیا تم جانتے ہو؟ اللہ پر ایمان لانا کیا ہے؟ وہ لوگ بولے: اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں، فرمایا: اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور نماز قائم کرنا، زکاۃ دینی، اور غنیمت کے مال میں سے خمس (پانچواں حصہ) ادا کرنا، اور چار باتوں سے منع کرتا ہوں: کدو کی تونبی، لکڑی کے برتن، لاکھی اور روغنی برتن میں تیار کی گئی نبیذ سے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 5034 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5695  
´نشہ لانے والی شراب کو مباح اور جائز قرار دینے کی احادیث کا ذکر۔`
ابوجمرہ نصر بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: میری دادی میرے لیے ایک گھڑے میں میٹھی نبیذ تیار کرتی ہیں جسے میں پیتا ہوں۔ اگر میں اسے زیادہ پی لوں اور لوگوں میں بیٹھوں تو اندیشہ لگا رہتا ہے کہ کہیں رسوائی نہ ہو جائے، وہ بولے: عبدالقیس کا ایک وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا: خوش آمدید ان لوگوں کو جو نہ رسوا ہوئے، نہ شرمندہ، وہ بولے: اللہ کے رسول! ہمارے اور آپ کے درمیا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الأشربة/حدیث: 5695]
اردو حاشہ:
(1) اس روایت سے متعلقہ چند باتیں حدیث 5641 میں گزرچکی ہیں۔
(2) رسوا نہ ہو جاؤں یعنی دماغ صحیح کام نہیں کرتا۔ گویا کچھ نہ کچھ نشہ ہوتا ہے۔
(3) نہ رسوا ہوئے نہ نادم اگر لڑائی میں شکست کے بعد مسلمان ہوتے تو شکست کی رسوائی اٹھانا پڑتی اور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ لڑائی کی ندامت بھی ہوتی۔ اب اپنے آپ مسلمان ہوئے تو دونوں چیزوں سے محفوظ رہے۔
(4) اس با ت میں اختلاف ہے کہ آپ نے ان کو کن چیزوں کا حکم دیا اور کن چیزوں سے منع فرمایا کیونکہ ظاہراً تو ایک چیز کے حکم کا ذکر ہے یعنی ایمان باللہ۔ اور ایک چیز سے منع کا ذکر ہے یعنی مندرجہ بالا برتنوں کی نبیذ سے۔ گویا باقی چیزوں کا ذکر نہیں بلکہ کسی اور روایت میں بھی ان کا ذکر نہیں۔ بعض حضرات کے نزدیک وہ چیزیں وہی ہیں جو ایمان باللہ کی تفسیر ہیں مگر وہ تو چار ہیں جب کہ اوپر تین چیزوں کے حکم کا ذکر ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ شہادتین کو شمار نہیں کیا گیا کیونکہ وہ شہادتین تو ادا کر چکے تھے۔ اسی طرح چار ممنوع چیزوں سے مراد چار برتن ہی ہیں۔ واللہ أعلم۔
(5) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے جواب سے مقصود یہ ہے کہ ایسی نبیذ جس میں نشے کا شک یا امکان ہو، نہیں پینی چاہیے، چہ جائیکہ ایسی نبیذ پی جائے جو حقیقتاً نشہ آور ہو۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5695   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3696  
´شراب میں استعمال ہونے والے برتنوں کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں وفد عبدالقیس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم کس برتن میں پیئیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دباء، مزفت اور نقیر میں مت پیو، اور تم نبیذ مشکیزوں میں بنایا کرو انہوں نے کہا: اللہ کے رسول اگر مشکیزے میں تیزی آ جائے تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس میں پانی ڈال دیا کرو وفد کے لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! (اگر پھر بھی تیزی نہ جائے تو) آپ نے ان سے تیسری یا چوتھی مرتبہ فرمایا: اسے بہا دو ۱؎ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ نے مجھ پر شراب، جوا، اور ڈھولک ک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الأشربة /حدیث: 3696]
فوائد ومسائل:

مشکیزےمیں ڈال ہوئے رس میں یہ شدت کسی خامرے کی آمیزش کے بغیر فطری طور پر پیدا ہوتی تھی۔


تیسری یا چوتھی بار پوچھنے سے پتہ چلا کہ وہ غیرمعمولی شدت ہے جو زیادہ وقت گزرنے کے ساتھ پیدا ہوتی ہے۔


جہاں شراب ایک مادی مشروب حرام ہے۔
کیونکہ عقل پر پردہ ڈال دیتی ہے، وہاں موسیقی ایک صوتی چیز ہے۔
جو بھلے چنگےآدمی کی عقل کو مائوف کر دیتی ہے۔
آلات موسیقی میں سے ایک ڈھول بھی ہے۔
جو حرام ہے۔
البتہ دف حلال ہے۔
جس پر ایک طرف سے چمڑا منڈا ہوتا ہے۔
اور دوسری طرف سے خالی ہوتا ہے۔
اسے ہاتھ سے بجایا جاتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3696