سنن نسائي
كتاب الأشربة -- کتاب: مشروبات (پینے والی چیزوں) کے احکام و مسائل
48. بَابُ : ذِكْرِ الأَخْبَارِ الَّتِي اعْتَلَّ بِهَا مَنْ أَبَاحَ شَرَابَ الْمُسْكِرِ
باب: نشہ لانے والی شراب کو مباح اور جائز قرار دینے کی احادیث کا ذکر۔
حدیث نمبر: 5711
قَالَ الْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ , عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ , قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ , عَنْ ابْنِ شِهَابٍ , عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ , أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ خَرَجَ عَلَيْهِمْ , فَقَالَ:" إِنِّي وَجَدْتُ مِنْ فُلَانٍ رِيحَ شَرَابٍ فَزَعَمَ أَنَّهُ شَرَابُ الطِّلَاءِ , وَأَنَا سَائِلٌ عَمَّا شَرِبَ , فَإِنْ كَانَ مُسْكِرًا جَلَدْتُهُ" , فَجَلَدَهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ الْحَدَّ تَامًّا.
سائب بن یزید سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ان کی طرف نکلے اور بولے: مجھے فلاں سے کسی شراب کی بو آ رہی ہے، اور وہ یہ کہتا ہے کہ یہ طلاء کا شراب ہے اور میں پوچھ رہا ہوں کہ اس نے کیا پیا ہے۔ اگر وہ کوئی نشہ لانے والی چیز ہے تو اسے کوڑے لگاؤں گا، چنانچہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اسے پوری پوری حد لگائی ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الٔاشراف: 10443) (صحیح الٕاسناد)»

وضاحت: ۱؎: عمر رضی اللہ عنہ کا مقصد یہ تھا کہ اگرچہ عبیداللہ کو نشہ نہیں آیا ہے، لیکن اگر اس نے کوئی نشہ لانے والی چیز پی ہو گی تو میں اس پر بھی اس کو حد کے کوڑے لگواؤں گا، اس لیے طحاوی وغیرہ کا یہ استدلال صحیح نہیں ہے کہ نشہ لانے والی مشروب کی وہ حد حرام ہے جو نشہ لائے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5711  
´نشہ لانے والی شراب کو مباح اور جائز قرار دینے کی احادیث کا ذکر۔`
سائب بن یزید سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ان کی طرف نکلے اور بولے: مجھے فلاں سے کسی شراب کی بو آ رہی ہے، اور وہ یہ کہتا ہے کہ یہ طلاء کا شراب ہے اور میں پوچھ رہا ہوں کہ اس نے کیا پیا ہے۔ اگر وہ کوئی نشہ لانے والی چیز ہے تو اسے کوڑے لگاؤں گا، چنانچہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اسے پوری پوری حد لگائی ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الأشربة/حدیث: 5711]
اردو حاشہ:
(1) اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تو ہر نشہ آور مشروب کو حرام اور قابل حد سمجھتے تھے حالانکہ یہ مشروب احناف کی تعریف کے مطابق خمر نہیں پھر بھی آپ نے اس کے پینے پر حد نافذ فرما دی حالانکہ پینے والے کو نشہ نہیں آتا تھا کیونکہ اگر اسے نشہ آیا ہوتا تو تحقیق کی ضرورت ہی نہ تھی کہ وہ مشروب نشے والا تھا یا نہیں۔ معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک نشہ آور مشروب حرام اور قابل حد ہے قلیل ہو یا کثیر۔ نشہ آئے یا نہ آئے لہٰذا ان کی طرف ایسے مشروب کے پینے کی نسبت صحیح نہیں ہوسکتی۔
(2) فلاں شخص یہ ان کے بیٹے عبیداللہ بن عمر تھے۔ یہ صحابی نہیں تھے۔ صحیح بخاری میں صراحت موجود ہے۔
(3) پوری حد لگائی کوئی رعایت نہیں فرمائی۔ رضي الله عنه وأرضاه۔
(4) طلاء انگور کے جوس کو آگ پرخشک کیا جاتا ہے۔ جب وہ دو تہائی خشک ہوجاتا ہےاور لئی جیسا بن جاتا ہے تو اسے استعمال کیا جاتا ہے۔ عموماً اس میں نشہ نہیں ہوتا لہذا جائز ہے، تاہم اگر نشہ پیدا ہوجائے تو حرام ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5711