صحيح البخاري
كِتَاب الشَّهَادَاتِ -- کتاب: گواہوں کے متعلق مسائل کا بیان
28. بَابُ مَنْ أَمَرَ بِإِنْجَازِ الْوَعْدِ:
باب: جس نے وعدہ پورا کرنے کا حکم دیا۔
وَفَعَلَهُ الْحَسَنُ، وَذَكَرَ إِسْمَاعِيلَ إِنَّهُ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَقَضَى ابْنُ الْأَشْوَعِ بِالْوَعْدِ، وَذَكَرَ ذَلِكَ عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، وَقَالَ الْمِسْوَرُ بْنُ مَخْرَمَةَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَذَكَرَ صِهْرًا لَهُ، قَالَ: وَعَدَنِي فَوَفَى لِي، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: وَرَأَيْتُ إِسْحَاقَ بْنَ إِبْرَاهِيمَ يَحْتَجُّ بِحَدِيثِ ابْنِ أَشْوَعَ.
اور امام حسن بصری رحمہ اللہ نے اس کو پورا کر دیا۔ اور سیدنا اسماعیل علیہ السلام کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس وصف سے کیا ہے کہ وہ وعدے کے سچے تھے۔ اور سعید بن الاشوع نے وعدہ پورا کرنے کے لیے حکم دیا تھا۔ اور سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے ایسا ہی نقل کیا، اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ایک داماد (ابوالعاص) کا ذکر فرما رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا تھا اسے پورا کیا، ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ اسحاق بن ابراہیم کو میں نے دیکھا کہ وہ وعدہ پورا کرنے کے وجوب پر ابن اشوع کی حدیث سے دلیل لیتے تھے۔
حدیث نمبر: 2681
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ حَمْزَةَ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَخْبَرَهُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سُفْيَانَ، أَنَّ هِرَقْلَ، قَالَ لَهُ: سَأَلْتُكَ، مَاذَا يَأْمُرُكُمْ؟ فَزَعَمْتَ أَنَّهُ" أَمَرَكُمْ بِالصَّلَاةِ وَالصِّدْقِ وَالْعَفَافِ وَالْوَفَاءِ بِالْعَهْدِ وَأَدَاءِ الْأَمَانَةِ"، قَالَ: وَهَذِهِ صِفَةُ نَبِيٍّ.
ہم سے ابرہیم بن حمزہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے صالح بن کیسان نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ نے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے انہیں خبر دی، انہوں نے بیان کیا کہ انہیں ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ ہرقل نے ان سے کہا تھا کہ میں نے تم سے پوچھا تھا کہ وہ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) تمہیں کس بات کا حکم دیتے ہیں تو تم نے بتایا کہ وہ تمہیں نماز، سچائی، عفت، عہد کے پورا کرنے اور امانت کے ادا کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ اور یہ نبی کی صفات ہیں۔
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2978  
´نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ ایک مہینے کی راہ سے اللہ نے میرا رعب (کافروں کے دلوں میں) ڈال کر میری مدد کی ہے`
«. . . أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَا سُفْيَانَ، أَخْبَرَهُ:" أَنَّ هِرَقْلَ أَرْسَلَ إِلَيْهِ وَهُمْ بِإِيلِيَاءَ، ثُمَّ دَعَا بِكِتَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قِرَاءَةِ الْكِتَابِ كَثُرَ عِنْدَهُ الصَّخَبُ، فَارْتَفَعَتِ الْأَصْوَاتُ وَأُخْرِجْنَا، فَقُلْتُ: لِأَصْحَابِي حِينَ أُخْرِجْنَا لَقَدْ أَمِرَ أَمْرُ ابْنِ أَبِي كَبْشَةَ إِنَّهُ يَخَافُهُ مَلِكُ بَنِي الْأَصْفَرِ . . .»
. . . ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک جب شاہ روم ہرقل کو ملا تو) اس نے اپنا آدمی انہیں تلاش کرنے کے لیے بھیجا۔ یہ لوگ اس وقت ایلیاء میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ آخر (طویل گفتگو کے بعد) اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک منگوایا۔ جب وہ پڑھا جا چکا تو اس کے دربار میں ہنگامہ برپا ہو گیا (چاروں طرف سے) آواز بلند ہونے لگی۔ اور ہمیں باہر نکال دیا گیا۔ جب ہم باہر کر دئیے گئے تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ابن ابی کبشہ (مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے) کا معاملہ تو اب بہت آگے بڑھ چکا ہے۔ یہ ملک بنی اصفر (قیصر روم) بھی ان سے ڈرنے لگا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ: 2978]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 2978 کا باب: «بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِيرَةَ شَهْرٍ»

باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کچھ اس طرح سے ہوگی کہ لفظی مطابقت کے لحاظ سے ابوسفیان رحمہ اللہ کا فرمان: «إنه يخافه ملك بني الأصفر» کہ یہ ملک بنی اصفر (قیصر روم) بھی ان سے ڈرتے ہیں، یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«موضع الترجمة من خبر أبى سفيان قوله: يخافه ملك بني الأصفر [المستواري، ص: 167]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«والغرض منه هنا قوله: إنه يخاف ملك بني الأصفر [فتح الباري، ج 6، ص: 159]
یعنی ان کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ڈرنا، یہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کا پہلو ہے، مزید اگر غور کیا جائے تو یہ لوگ جن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک دیا گیا تھا وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوسوں دور تھے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«لانه كان بين المدينة و بين المكان الذى كان قيصر ينزل فيه مدة شهر أو نحوه.» [فتح الباري، ج 6، ص: 159]
یقینا مدینے اور وہ جگہ جہاں قیصر ہے دونوں میں ایک ماہ یا کچھ لگ بھگ کی مسافت ہے۔
علامہ عینی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
شام اور حجاز کے درمیان ایک ماہ یا اس سے زائد مسافت ہے۔ [عمدة القاري، ج 14، ص: 236]
بدرالدین بن جماعۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«مطابقة حديث أبى سفيان للترجمة قوله انه ليخافه ملك بني الأصفر صفود كان بالشام، و بين الشام و الحجاز مسيرة شهر.» [مناسبات تراجم البخاري، ص: 88]
ابوسفیان رحمہ اللہ کی حدیث میں ترجمۃ الباب سے مطابقت یہ ہے کہ ابوسفیان رحمہ اللہ نے فرمایا: «انه ليخافه ملك بني الأصفر» اور وہ شام میں تھے، شام اور حجاز کے درمیان ایک مہینے کی مسافت ہے۔
فائدہ:
ہم یہاں پر عرب کا نقشہ واضح کر رہے ہیں، نقشہ کو دیکھ کر آپ مسافت کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 434   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2681  
2681. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ابو سفیان ؓ سے شاہ روم ہرقل نے کہا: میں نے تجھ سے ان(رسول اللہ ﷺ) کے متعلق سوال کیا تھا کہ وہ تمھیں کس چیز کا حکم دیتے ہیں؟ تو نے کہا تھا کہ وہ ہمیں نماز، سچائی، پاک دامنی، ایفائے عہد اور امانت کی ادائیگی کا حکم دیتے ہیں۔ تو نبی کریم ﷺ کی ہی صفات ہوتی ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2681]
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخای ؒ خود مجتہد مطلق ہیں۔
جامع الصحیح میں جگہ جگہ آپ نے اپنے خدا داد اجتہادی ملکہ سے کام لیا ہے۔
آپ کے سامنے یہ نہیں ہوتا کہ ان کو کس مسلک کی موافقت کرنی ہے اورکس کی تردید۔
ان کے سامنے صرف کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ہوتی ہے۔
ان ہی کے تحت وہ مسائل واحکام پیش کرتے ہیں۔
وہ کسی مجتہد و امام کے مسلک کے مخالف ہوں یا موافق حضرت امام کو قطعاً یہ پرواہ نہیں ہوتی۔
پھر موجودہ دیوبندی ناشران بخاری کا کئی جگہ یہ لکھنا کہ یہاں امام بخاری ؒنے فلاں امام کا مسلک اختیار کیا ہے بالکل غلط اور حضرت امام کی شان اجتہاد میں تنقیص ہے۔
اس جگہ بھی صاحب تفہیم البخاری نے ایسا ہی الزام دہرایا ہے۔
وہ صاحب لکھتے ہیں کہ امام مالک ؒ کہتے ہیں کہ وعدہ کرنے کا حکم بھی قضا کے تحت آسکتا ہے اور امام بخاری ؒ نے بھی غالباً اس باب میں امام مالک ؒ کا مسلک اختیار کیا ہے۔
(تفہیم البخاری، پ: 10....ص: 117)
سچ ہے المرأ یقیس علی نفسه مقلدین کا چونکہ یہی رویہ ہے وہ مجتہد مطلق امام بخاری ؒ کو بھی اسی نظر سے دیکھتے ہیں جوبالکل غلط ہے۔
حضرت امام خود مجتہد مطلق ہیں۔
رحمه اللہ تعالیٰ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2681