سنن ترمذي
كتاب الطهارة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: طہارت کے احکام و مسائل
57. بَابُ مَا جَاءَ فِي الْوُضُوءِ مِنَ النَّوْمِ
باب: نیند سے وضو کا بیان۔
حدیث نمبر: 78
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: " كَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنَامُونَ، ثُمَّ يَقُومُونَ فَيُصَلُّونَ وَلَا يَتَوَضَّئُونَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَالَ: وسَمِعْت صَالِحَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الْمُبَارَكِ عَمَّنْ نَامَ قَاعِدًا مُعْتَمِدًا، فَقَالَ: لَا وُضُوءَ عَلَيْهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رَوَى حَدِيثَ ابْنِ عَبَّاسٍ سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَوْلَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ أَبَا الْعَالِيَةِ، وَلَمْ يَرْفَعْهُ، وَاخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِي الْوُضُوءِ مِنَ النَّوْمِ، فَرَأَى أَكْثَرُهُمْ أَنْ لَا يَجِبَ عَلَيْهِ الْوُضُوءُ إِذَا نَامَ قَاعِدًا أَوْ قَائِمًا، حَتَّى يَنَامَ مُضْطَجِعًا، وَبِهِ يَقُولُ الثَّوْرِيُّ، وَابْنُ الْمُبَارَكِ، وَأَحْمَدُ، قَالَ: وَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِذَا نَامَ حَتَّى غُلِبَ عَلَى عَقْلِهِ وَجَبَ عَلَيْهِ الْوُضُوءُ، وَبِهِ يَقُولُ إِسْحَاق، وقَالَ الشَّافِعِيُّ: مَنْ نَامَ قَاعِدًا فَرَأَى رُؤْيَا أَوْ زَالَتْ مَقْعَدَتُهُ لِوَسَنِ النَّوْمِ، فَعَلَيْهِ الْوُضُوءُ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی الله عنہم (بیٹھے بیٹھے) سو جاتے، پھر اٹھ کر نماز پڑھتے اور وضو نہیں کرتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- میں نے صالح بن عبداللہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے عبداللہ ابن مبارک سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا جو بیٹھے بیٹھے سو جائے تو انہوں نے کہا کہ اس پر وضو نہیں،
۳- ابن عباس والی حدیث کو سعید بن ابی عروبہ نے بسند «قتادہ عن ابن عباس» (موقوفاً) روایت کیا ہے اور اس میں ابولعالیہ کا ذکر نہیں کیا ہے،
۴- نیند سے وضو کے سلسلہ میں علماء کا اختلاف ہے، اکثر اہل علم کی رائے یہی ہے کہ کوئی کھڑے کھڑے سو جائے تو اس پر وضو نہیں جب تک کہ وہ لیٹ کر نہ سوئے، یہی سفیان ثوری، ابن مبارک اور احمد کہتے ہیں، اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ جب نیند اس قدر گہری ہو کہ عقل پر غالب آ جائے تو اس پر وضو واجب ہے اور یہی اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں، شافعی کا کہنا ہے کہ جو شخص بیٹھے بیٹھے سوئے اور خواب دیکھنے لگ جائے، یا نیند کے غلبہ سے اس کی سرین اپنی جگہ سے ہٹ جائے تو اس پر وضو واجب ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحیض 33 (123/376)، سنن ابی داود/ الطہارة 80 (200)، (تحفة الأشراف: 1271)، مسند احمد (3/277 (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: ان تینوں میں راجح پہلا مذہب ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (114) ، صحيح أبي داود (194) ، المشكاة (317)
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 62  
´جب تک انسان گہری نیند نہ سوئے اس وقت تک اس کا وضو نہیں ٹوٹتا`
«. . . عن انس بن مالك رضي الله عنه قال: کان اصحاب رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم على عهده ينتظرون العشاء،‏‏‏‏ حتى تخفق رؤوسهم،‏‏‏‏ ثم يصلون ولا يتوضاون . . .»
. . . سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عہدرسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نماز عشاء کا اتنا انتظار کرتے کہ غلبہ نیند کی وجہ سے ان کے سر جھک جاتے۔ مگر وہ ازسر نو وضو کئے بغیر نماز پڑھ لیتے . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 62]
لغوی تشریح:
«بَابُ نَوَاقِضِ الْوُضُوءِ» «نَوَاقِضِ» ناقص کی جمع ہے۔ اس سے مراد وہ چیزیں ہیں جن سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔
«تَخْفِقَ» نیند کے غلبے کی وجہ سے جھک جاتے۔
«رُؤُوسُهُمْ» «رؤس»، «راس» کی جمع ہے جس کے معنی سر کے ہیں۔

فوائد و مسائل:
➊ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جب تک انسان گہری نیند نہ سوئے اس وقت تک اس کا وضو نہیں ٹوٹتا۔
➋ اس سے پہلے سیدنا صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ کی روایت گزشتہ باب میں گزر چکی ہے جو مطلق نیند سے وضو کے ٹوٹنے پر دلالت کرتی ہے۔
➌ اس روایت کی روشنی میں اس روایت کو گہری نیند پر محمول کیا جائے گا یا یہ کہا جائے گا کہ اس حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نیند سے مراد مخصوص نیند (اونگھ) لی ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس نیند سے واقف تھے جس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور اس نیند سے بھی باخبر تھے جس سے وضو نہیں ٹوٹتا، اس لیے وضاحت اور بیان کی ضرورت نہیں سمجھی۔ بہرصورت یہ بات معلوم ہوئی کہ ٹیک یا تکیہ لگا کر سو جانے کی وجہ سے جبکہ انسان کا شعور اور احساس زائل ہو جائے تو ایسی نیند ناقض وضو ہو گی۔ اور عموماً شعور زائل ہو جاتا ہے بصورت دیگر اونگھ سے وضو نہیں ٹوٹتا۔
➍ ٹیک لگانے یا تکیے کا سہارا لینے کی حالت میں جسمانی جوڑ ڈھیلے ہو جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں پیٹ سے ہوا کے خروج کا غالب امکان ہوتا ہے، اسی بنیاد پر احتیاط کے پیش نظر وضو نئے سرے سے کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ بالصواب»
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 62   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 78  
´نیند سے وضو کا بیان۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی الله عنہم (بیٹھے بیٹھے) سو جاتے، پھر اٹھ کر نماز پڑھتے اور وضو نہیں کرتے تھے۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 78]
اردو حاشہ:
1؎:
ان تینوں میں راجح پہلا مذہب ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 78