ابوالشعثاء سلیم بن اسود کہتے ہیں کہ ایک شخص عصر کی اذان ہو چکنے کے بعد مسجد سے نکلا تو ابوہریرہ رضی الله عنہ نے کہا: رہا یہ تو اس نے ابوالقاسم صلی الله علیہ وسلم کی نافرمانی کی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ کی روایت حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عثمان رضی الله عنہ سے بھی حدیث ہے، ۳- صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ اذان ہو جانے کے بعد بغیر کسی عذر کے مثلاً بے وضو ہو یا کوئی ناگزیر ضرورت آ پڑی ہو جس کے بغیر چارہ نہ ہو کوئی مسجد سے نہ نکلے ۱؎، ۴- ابراہیم نخعی سے مروی ہے کہ جب تک مؤذن اقامت شروع نہیں کرتا وہ باہر نکل سکتا ہے، ۵- ہمارے نزدیک یہ اس شخص کے لیے ہے جس کے پاس نکلنے کے لیے کوئی عذر موجود ہو۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 204
´اذان کے بعد مسجد سے باہر نکلنے کی کراہت کا بیان۔` ابوالشعثاء سلیم بن اسود کہتے ہیں کہ ایک شخص عصر کی اذان ہو چکنے کے بعد مسجد سے نکلا تو ابوہریرہ رضی الله عنہ نے کہا: رہا یہ تو اس نے ابوالقاسم صلی الله علیہ وسلم کی نافرمانی کی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 204]
اردو حاشہ: 1؎: ایک عذر یہ بھی ہے کہ آدمی کسی دوسری مسجد کا امام ہو۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 204