صحيح البخاري
كِتَاب الصُّلْحِ -- کتاب: صلح کے مسائل کا بیان
6. بَابُ كَيْفَ يُكْتَبُ هَذَا مَا صَالَحَ فُلاَنُ بْنُ فُلاَنٍ. وَفُلاَنُ بْنُ فُلاَنٍ وَإِنْ لَمْ يَنْسُبْهُ إِلَى قَبِيلَتِهِ، أَوْ نَسَبِهِ:
باب: صلح نامہ میں لکھنا کافی ہے یہ وہ صلح نامہ ہے جس پر فلاں ولد فلاں اور فلاں ولد فلاں نے صلح کی اور خاندان اور نسب نامہ لکھنا ضروری نہیں ہے۔
حدیث نمبر: 2699
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" اعْتَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذِي الْقَعْدَةِ، فَأَبَى أَهْلُ مَكَّةَ أَنْ يَدَعُوهُ يَدْخُلُ مَكَّةَ حَتَّى قَاضَاهُمْ عَلَى أَنْ يُقِيمَ بِهَا ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، فَلَمَّا كَتَبُوا الْكِتَابَ كَتَبُوا هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ، فَقَالُوا: لَا نُقِرُّ بِهَا، فَلَوْ نَعْلَمُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ مَا مَنَعْنَاكَ، لَكِنْ أَنْتَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: أَنَا رَسُولُ اللَّهِ، وَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، ثُمَّ قَالَ لِعَلِيٍّ: امْحُ رَسُولُ اللَّهِ، قَالَ: لَا، وَاللَّهِ لَا أَمْحُوكَ أَبَدًا، فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْكِتَابَ، فَكَتَبَ هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ لَا يَدْخُلُ مَكَّةَ سِلَاحٌ إِلَّا فِي الْقِرَابِ، وَأَنْ لَا يَخْرُجَ مِنْ أَهْلِهَا بِأَحَدٍ إِنْ أَرَادَ أَنْ يَتَّبِعَهُ، وَأَنْ لَا يَمْنَعَ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِهِ أَرَادَ أَنْ يُقِيمَ بِهَا، فَلَمَّا دَخَلَهَا وَمَضَى الْأَجَلُ أَتَوْا عَلِيًّا، فَقَالُوا: قُلْ لِصَاحِبِكَ اخْرُجْ عَنَّا فَقَدْ مَضَى الْأَجَلُ، فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَبِعَتْهُمُ ابْنَةُ حَمْزَةَ، يَا عَمِّ، يَا عَمِّ، فَتَنَاوَلَهَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَأَخَذَ بِيَدِهَا، وَقَالَ لِفَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَام: دُونَكِ ابْنَةَ عَمِّكِ حَمَلَتْهَا فَاخْتَصَمَ فِيهَا عَلِيٌّ، وَزَيْدٌ، وَجَعْفَرٌ، فَقَالَعَلِيٌّ: أَنَا أَحَقُّ بِهَا وَهِيَ ابْنَةُ عَمِّي، وَقَالَ جَعْفَرٌ: ابْنَةُ عَمِّي وَخَالَتُهَا تَحْتِي، وَقَالَ زَيْدٌ: ابْنَةُ أَخِي، فَقَضَى بِهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِخَالَتِهَا، وَقَالَ: الْخَالَةُ بِمَنْزِلَةِ الْأُمِّ، وَقَالَ لِعَلِيٍّ: أَنْتَ مِنِّي وَأَنَا مِنْكَ، وَقَالَ لِجَعْفَرٍ: أَشْبَهْتَ خَلْقِي وَخُلُقِي، وَقَالَ لِزَيْدٍ: أَنْتَ أَخُونَا وَمَوْلَانَا".
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا اسرائیل سے، ان سے ابواسحاق نے اور ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذی قعدہ کے مہینے میں عمرہ کا احرام باندھا۔ لیکن مکہ والوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہر میں داخل نہیں ہونے دیا۔ آخر صلح اس پر ہوئی کہ (آئندہ سال) آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تین روز قیام کریں گے۔ جب صلح نامہ لکھا جانے لگا تو اس میں لکھا گیا کہ یہ وہ صلح نامہ ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے۔ لیکن مشرکین نے کہا کہ ہم تو اسے نہیں مانتے۔ اگر ہمیں علم ہو جائے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم آپ کو نہ روکیں۔ بس آپ صرف محمد بن عبداللہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں رسول اللہ بھی ہوں اور محمد بن عبداللہ بھی ہوں۔ اس کے بعد آپ نے علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ رسول اللہ کا لفظ مٹا دو، انہوں نے عرض کیا نہیں اللہ کی قسم! میں تو یہ لفظ کبھی نہ مٹاؤں گا۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود دستاویز لی اور لکھا کہ یہ اس کی دستاویز ہے کہ محمد بن عبداللہ نے اس شرط پر صلح کی ہے کہ مکہ میں وہ ہتھیار میان میں رکھے بغیر داخل نہ ہوں گے۔ اگر مکہ کا کوئی شخص ان کے ساتھ جانا چاہے گا تو وہ اسے ساتھ نہ لے جائیں گے۔ لیکن اگر ان کے اصحاب میں سے کوئی شخص مکہ میں رہنا چاہے گا تو اسے وہ نہ روکیں گے۔ جب (آئندہ سال) آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ تشریف لے گئے اور (مکہ میں قیام کی) مدت پوری ہو گئی تو قریش علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ اپنے صاحب سے کہئے کہ مدت پوری ہو گئی ہے اور اب وہ ہمارے یہاں سے چلے جائیں۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے روانہ ہونے لگے۔ اس وقت حمزہ رضی اللہ عنہ کی ایک بچی چچا چچا کرتی آئیں۔ علی رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنے ساتھ لے لیا، پھر فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس ہاتھ پکڑ کر لائے اور فرمایا، اپنی چچا زاد بہن کو بھی ساتھ لے لو، انہوں نے اس کو اپنے ساتھ سوار کر لیا، پھر علی، زید اور جعفر رضی اللہ عنہم کا جھگڑا ہوا۔ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس کا میں زیادہ مستحق ہوں، یہ میرے چچا کی بچی ہے۔ جعفر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ میرے بھی چچا کی بچی ہے اور اس کی خالہ میرے نکاح میں بھی ہیں۔ زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرے بھائی کی بچی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچی کی خالہ کے حق میں فیصلہ کیا اور فرمایا کہ خالہ ماں کی جگہ ہوتی ہے، پھر علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں۔ جعفر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم صورت اور عادات و اخلاق سب میں مجھ سے مشابہ ہو۔ زید رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم ہمارے بھائی بھی ہو اور ہمارے مولا بھی۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 938  
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ذی قعدہ والے عمرے کا بیان۔`
براء رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذی قعدہ کے مہینہ میں عمرہ کیا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 938]
اردو حاشہ: 1؎:
بخاری کی ایک روایت میں ہے ' اعتمر رسول الله ﷺ في ذي القعدة قبل أن يحج مرتين'۔
نبی اکرمﷺ نے حج سے پہلے آپ نے ذوقعدہ میں دومرتبہ عمرہ کیا)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 938   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2278  
´بچے کی پرورش کا زیادہ حقدار کون ہے؟`
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ مکہ گئے تو حمزہ رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی کو لے آئے، جعفر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: اسے میں لوں گا، میں اس کا زیادہ حقدار ہوں، یہ میری چچا زاد بہن ہے، نیز اس کی خالہ میرے پاس ہے، اور خالہ ماں کے درجے میں ہوتی ہے، اور علی رضی اللہ عنہ کہنے لگے: اس کا زیادہ حقدار میں ہوں کیونکہ یہ میری چچا زاد بہن ہے، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی میرے نکاح میں ہے، وہ بھی اس کی زیادہ حقدار ہیں اور زید رضی اللہ عنہ نے کہا: سب سے زیادہ اس کا حقدار میں ہوں کیونکہ میں اس کے پاس گیا، اور سفر کر کے اسے لے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2278]
فوائد ومسائل:
بچے کی نگہداشت اور تربیت میں اولویت واولیت ماں کو حاصل ہے جیسے کہ اوپر کی حدیث میں گزرا ہے اس کے بعد خالہ ہے پھر باپ کی جانب کے رشتہ دار ہیں (عصبات)۔
امام ابن تیمیہ اور ابن قیمؒ فرماتے ہیں کہ اس تقدیم وترتیب میں بچے کے حال اور مستقبل کی مصلحت کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے۔
اگر اس میں کسی واضح فتنے کا اندیشہ ہوتو ترتیب کو بدلنا لازمی ہوگا کیونکہ مثلاً بچے کو اختیار دینے کی صورت میں عین ممکن ہے کہ ناقص العقل ہونے کی وجہ صحیح فیصلہ نہ کرسکے۔
اور حق میراث کی مانند نہیں کہ اس میں محض قرابت داری ہی بنیاد ہو بلکہ یہ حق ولایت ہے جیسے کہ نکاح اور مالی معاملات میں ہوتا ہے اور ان میں مصالح کو ترجیح دی جاتی ہےنہ کہ محض قرابت داری کو۔
اسی طرح بچے کی نگہداشت وتربیت میں ایک جانب واضح ظلم ہو اس کے عقیدے تعلیم و تربیت اور اخلاق وعمل کی حفاظت کا اہتمام نہ ہو اور دوسری جانب ان امور کا اہتمام ہو تو دوسری جانب کو ترجیح ہوگی۔
(تیسیر العلام شرح عمدہ الاحکام، جلد دوم، حدیث:332۔
نیل الأوطار، جلد ششم، باب من أحق بکفالة الطفل)

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2278   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2699  
2699. حضرت براء بن عازب ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نےکہا: نبی کریم ﷺ نے ذی القعدہ میں عمرہ کرنے کا ارادہ کیا تو اہل مکہ نے آپ کو مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا، یہاں تک کہ ان لوگوں نے آپ سے ان شرائط پر صلح کرلی کہ آپ آئندہ سال صرف تین دن مکہ میں قیام فرمائیں گے۔ جب صلح نامہ لکھنے لگے تو لکھا: یہ وہ دستاویز ہے جس پر محمد رسول اللہ ﷺ نے صلح کی ہے۔ مشرکین نے کہا: ہم تواس رسالت کا اقرار نہیں کریں گے۔ اگر ہم یقین ہوکہ آپ اللہ کے رسول ﷺ ہیں تو ہم آپ کو مکہ میں داخل ہونے سے کبھی نہ روکیں لیکن آپ تو محمد بن عبداللہ ہیں۔ آپ نے فرمایا: میں اللہ کا رسول بھی ہوں اور محمد بن عبداللہ بھی ہوں۔ پھر آپ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کا لفظ مٹادو۔ حضرت علی ؓ نے عرض کیا: اللہ کی قسم!میں تو کبھی آپ کانام نہیں مٹاؤں گا۔ تب رسول اللہ ﷺ نے از خود وہ صلح۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2699]
حدیث حاشیہ:
حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ آنحضرت ﷺ کے رضائی بھائی تھے۔
اس لیے ان کی صاحبزادی نے آپ کو چچا چچا کہہ کر پکارا۔
حضرت زید ؓ نے اس بچی کو اپنی بھتیجی اس لیے کہا کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت زید ؓ کو حضرت حمزہ ؓ کا بھائی بنادیا تھا۔
زید ؓ سے آنحضرت ﷺ نے لفظ مولانا سے خطاب فرمایا، مولیٰ اس غلام کو کہتے ہیں جس کو مالک آزاد کردے۔
آپ ﷺ نے حضرت زید کو آزادکرکے اپنا بیٹا بنالیا تھا۔
جب آپ نے یہ لڑکی ازروئے انصاف حضرت جعفر ؓ کو دلوائی تو اوروں کا دل خوش کرنے کے لیے یہ حدیث فرمائی۔
اس حدیث سے حضرت علی ؓ کی بڑی فضیلت نکلی۔
آنحضرت ﷺ نے فرمایا، میں تیرا ہوں، تو میرا ہے۔
مطلب یہ کہ ہم تم دونوں ایک ہی دادا کی اولاد ہیں اور خون ملا ہوا ہے۔
حضرت علی ؓ نے مٹانے اور آپ کا نام نامی لکھنے سے انکار عدول حکمی کے طورپر نہیں کیا، بلکہ قوت ایمانیہ کے جوش سے ان سے یہ نہیں ہوسکا کہ آپ کی رسالت جو سراسر برحق ہے اور صحیح تھی، اس کو اپنے ہاتھ سے مٹائیں۔
حضرت علی ؓ کو یہ بھی معلوم ہوگیا تھا کہ آپ کا حکم بطور وجوب کے نہیں ہے۔
ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ ترجمہ میں صرف فلاں بن فلاں لکھنے پر اقتصار کیا اور زیادہ نسب نامہ خاندان وغیرہ نہیں لکھوایا۔
روایت ہذا میں جو آپ کے خود لکھنے کا ذکر ہے یہ بطور معجزہ ہوگا، ورنہ درحقیقت آپ نبی امی تھے اور لکھنے پڑھنے سے آپ کا کوئی تعلق نہ تھا۔
پھر اللہ نے آپ کو علوم الاولین و الآخرین سے مالا مال فرمایا۔
جو لوگ حضور ﷺ کے امی ہونے کا انکار کرتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔
امی ہونا بھی آپ کا معجزہ ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2699   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2699  
2699. حضرت براء بن عازب ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نےکہا: نبی کریم ﷺ نے ذی القعدہ میں عمرہ کرنے کا ارادہ کیا تو اہل مکہ نے آپ کو مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا، یہاں تک کہ ان لوگوں نے آپ سے ان شرائط پر صلح کرلی کہ آپ آئندہ سال صرف تین دن مکہ میں قیام فرمائیں گے۔ جب صلح نامہ لکھنے لگے تو لکھا: یہ وہ دستاویز ہے جس پر محمد رسول اللہ ﷺ نے صلح کی ہے۔ مشرکین نے کہا: ہم تواس رسالت کا اقرار نہیں کریں گے۔ اگر ہم یقین ہوکہ آپ اللہ کے رسول ﷺ ہیں تو ہم آپ کو مکہ میں داخل ہونے سے کبھی نہ روکیں لیکن آپ تو محمد بن عبداللہ ہیں۔ آپ نے فرمایا: میں اللہ کا رسول بھی ہوں اور محمد بن عبداللہ بھی ہوں۔ پھر آپ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کا لفظ مٹادو۔ حضرت علی ؓ نے عرض کیا: اللہ کی قسم!میں تو کبھی آپ کانام نہیں مٹاؤں گا۔ تب رسول اللہ ﷺ نے از خود وہ صلح۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2699]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ صلح کی دستاویز میں نسب وغیرہ کا بیان کرنا تعین اور رفع ابہام کے لیے ہوتا ہے۔
اگر اس کے بغیر یہ مقصد حاصل ہو جائے تو پھر نسب بیان کرنے کی ضرورت نہیں جیسا کہ اس حدیث کے مطابق صلح نامے میں صرف محمد بن عبداللہ لکھا گیا۔
فقہاء نے لکھا ہے:
اس طرح کی دستاویز میں والدین، نسب اور قبیلے وغیرہ کا ذکر التباس کی صورت میں ضروری ہے، بسورت دیگر ان کا تحریر کرنا ضروری نہیں۔
(2)
اس روایت کے مطابق حضرت علی ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کی بلکہ قوتِ ایمان کے جوش سے یہ نہ ہو سکا کہ آپ کی رسالت جو سراسر برحق اور صحیح تھی اس کو اپنے ہاتھ سے مٹائیں۔
حضرت علی ؓ کو قرائن سے معلوم ہو گیا تھا کہ آپ کا یہ ارشاد، وجوب کے طور پر نہیں ہے ورنہ یہ ممکن نہ تھا کہ آپ اس کی تعمیل نہ کرتے۔
(3)
واضح رہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر مصلحت کے پیش نظر رسول اللہ ﷺ نے مشرکین مکہ کی کئی شرائط کو تسلیم کیا۔
آئندہ سال خود مشرکین ہی کو ان غلط شرائط کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔
ہم اس کی تفصیل آئندہ بیان کریں گے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2699