سنن ترمذي
كتاب الصلاة -- کتاب: نماز کے احکام و مسائل
92. باب مَا جَاءَ فِي التَّجَافِي فِي السُّجُودِ
باب: سجدے میں دونوں ہاتھوں کو دونوں پہلوؤں سے جدا رکھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 274
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَقْرَمِ الْخُزَاعِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ أَبِي بِالْقَاعِ مِنْ نَمِرَةَ فَمَرَّتْ رَكَبَةٌ، فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " قَائِمٌ يُصَلِّي قَالَ: فَكُنْتُ أَنْظُرُ إِلَى عُفْرَتَيْ إِبْطَيْهِ إِذَا سَجَدَ وأَريْ بَيَاضِهِ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَابْنِ بُحَيْنَةَ، وَجَابِرٍ، وَأَحْمَرَ بْنِ جَزْءٍ، وَمَيْمُونَةَ، وَأَبِي حُمَيْدٍ، وَأَبِي مَسْعُودٍ، وَأَبِي أُسَيْدٍ، وَسَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، وَمُحَمَّدِ بْنِ مَسْلَمَةَ، وَالْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، وَعَدِيِّ بْنِ عَمِيرَةَ، وَعَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَأَحْمَرُ بْنُ جَزْءٍ هَذَا رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهُ حَدِيثٌ وَاحِدٌ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَقْرَمَ حَدِيثٌ حَسَنٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ دَاوُدَ بْنِ قَيْسٍ، وَلَا نَعْرِفُ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَقْرَمَ الْخُزَاعِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرَ هَذَا الْحَدِيثِ، وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَال: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَرْقَمَ الزُّهْرِيُّ صَاحِبُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ كَاتِبُ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ.
عبداللہ بن اقرم خزاعی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں مقام نمرہ کے «قاع» مسطح زمین میں اپنے والد کے ساتھ تھا، تو (وہاں سے) ایک قافلہ گزرا، کیا دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں بغلوں کی سفیدی دیکھ رہا تھا جب آپ سجدہ کرتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عبداللہ بن اقرم رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے، اسے ہم صرف داود بن قیس کی سند سے جانتے ہیں۔ عبداللہ بن اقرم خزاعی کی اس کے علاوہ کوئی اور حدیث جسے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہو ہم نہیں جانتے،
۲- صحابہ کرام میں سے اکثر اہل علم کا عمل اسی پر ہے۔ اور عبداللہ بن ارقم زہری نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ہیں اور وہ ابوبکر صدیق کے منشی تھے،
۳- اس باب میں ابن عباس، ابن بحینہ، جابر، احمر بن جزئ، میمونہ، ابوحمید، ابومسعود، ابواسید، سہل بن سعد، محمد بن مسلمہ، براء بن عازب، عدی بن عمیرہ اور عائشہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۴- احمر بن جزء نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ایک آدمی ہیں اور ان کی صرف ایک حدیث ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن النسائی/التطبیق 51 (1109)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 19 (881)، (تحفة الأشراف: 5142)، مسند احمد (4/35) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (881)
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث881  
´نماز میں سجدے کا بیان۔`
عبداللہ بن اقرم خزاعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک بار اپنے والد کے ساتھ نمرہ کے میدان میں تھا کہ ہمارے پاس سے کچھ سوار گزرے، انہوں نے راستے کی ایک جانب اپنی سواریوں کو بٹھایا، مجھ سے میرے والد نے کہا: تم اپنے جانوروں میں رہو تاکہ میں ان لوگوں کے پاس جا کر ان سے پوچھوں (کہ کون لوگ ہیں)، وہ کہتے ہیں: میرے والد گئے، اور میں بھی قریب پہنچا تو دیکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں، میں نماز میں حاضر ہوا اور ان لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی، جب جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں جاتے میں آپ کی دونوں بغلوں کی سفیدی کو دیکھتا تھا ۲؎۔ ابن ماجہ ک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 881]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
سفر کے دوران میں رستے میں ٹھرنا پڑے تو سڑک پر ٹھرنے کی بجائے نیچے اتر کر ایک طرف ٹھرنا چاہیے۔

(2)
صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین کی نظر میں نماز باجماعت کی اہمیت اس قدر زیادہ تھی کہ حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بکریوں کو اپنی جگہ چھوڑ کرنماز باجماعت میں شرکت کی۔

(3)
رسول اللہ ﷺ نے سجدہ کرتے وقت بازؤں کو پہلوئوں سے ملا کر نہیں رکھا۔
اس لئے صحابہ رضوان للہ عنہم اجمعین کو نبی کریمﷺ کی بغلیں اچھی طرح نظر آ گیئں۔

(2)
بغلوں کی سفیدی کےلئے (عفرۃ)
کا لفظ استعمال ہوا ہے۔
اس سے مراد ایسا سفید رنگ ہے۔
جس میں سیاہی کی ہلکی سی آمیزش ہو اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی کریمﷺ کی جلد مبارک کا رنگ بالکل سفید تھا۔
اور بالوں کے اگتے ہوئے سرے سیاہ رنگ کے تھے۔
ان دونوں کے ملنے سے بغلوں کا رنگ سیاہی مائل سفید نظرآیا۔

(5)
بغلوں کے بال اکھاڑنا مسنون ہے۔
جب بال اتنے چھوٹے ہوں کہ اکھاڑنا مشکل ہو اسوقت جس کے سفید رنگ سے مل کر مذکورہ بالا کیفیت پیدا ہوسکتی ہے۔
اس میں یہ اشارہ بھی ہے کہ بال بہت بڑھے ہوئے نہیں تھے۔
ورنہ عفرہ (خاکستری رنگ)
کے بجائےسواد (سیاہی)
کا لفظ بولا جاتا۔
صفائی کا تقاضا یہ ہے کہ جسم کے غیر ضروری بال مناسب حد سے زیادہ نہ بڑھنے دیئے جایئں بروقت صفائی کرلی جائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 881