صحيح البخاري
كِتَاب الصُّلْحِ -- کتاب: صلح کے مسائل کا بیان
10. بَابُ هَلْ يُشِيرُ الإِمَامُ بِالصُّلْحِ:
باب: کیا امام صلح کے لیے فریقین کو اشارہ کر سکتا ہے؟
حدیث نمبر: 2705
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَخِي، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي الرِّجَالِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّأُمَّهُ عَمْرَةَ بِنْتَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَتْ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، تَقُولُ" سَمِعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَوْتَ خُصُومٍ بِالْبَابِ عَالِيَةٍ أَصْوَاتُهُمَا، وَإِذَا أَحَدُهُمَا يَسْتَوْضِعُ الْآخَرَ وَيَسْتَرْفِقُهُ فِي شَيْءٍ، وَهُوَ يَقُولُ: وَاللَّهِ لَا أَفْعَلُ، فَخَرَجَ عَلَيْهِمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَيْنَ الْمُتَأَلِّي عَلَى اللَّهِ لَا يَفْعَلُ الْمَعْرُوفَ؟ فَقَالَ: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَلَهُ أَيُّ ذَلِكَ أَحَبَّ".
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے بھائی عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے سلیمان بن ہلال نے، ان سے یحییٰ بن سعید نے، ان سے ابوالرجال، محمد بن عبدالرحمٰن نے، ان سے ان کی والدہ عمرہ بنت عبدالرحمٰن نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دروازے پر دو جھگڑا کرنے والوں کی آواز سنی جو بلند ہو گئی تھی۔ واقعہ یہ تھا کہ ایک آدمی دوسرے سے قرض میں کچھ کمی کرنے اور تقاضے میں کچھ نرمی برتنے کے لیے کہہ رہا تھا اور دوسرا کہتا تھا کہ اللہ کی قسم! میں یہ نہیں کروں گا۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس گئے اور فرمایا کہ اس بات پر اللہ کی قسم کھانے والے صاحب کہاں ہیں؟ کہ وہ ایک اچھا کام نہیں کریں گے۔ ان صحابی نے عرض کیا، میں ہی ہوں یا رسول اللہ! اب میرا بھائی جو چاہتا ہے وہی مجھ کو بھی پسند ہے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2705  
2705. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے دروازے پر دو جھگڑنے والوں کی آوازیں سنیں جو بلند ہورہی تھیں۔ واقعہ یہ تھا کہ ان میں سے ایک دوسرے سے قرض میں کمی کرنے اور تقاضے میں کچھ نرمی برتنے کے لیے کہہ رہا تھا جبکہ دوسرا کہتاتھا کہ اللہ کی قسم!میں ایسا نہیں کروں گا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا: اس بات پر اللہ کی قسم اٹھانے والے صاحب کہاں ہیں جو کہتے ہیں کہ میں نیکی کاکام نہیں کروں گا؟ قسم اٹھانے والے نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!میں موجود ہوں۔ اب میرا بھائی جو چاہتا ہے مجھے وہی پسند ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2705]
حدیث حاشیہ:
آنحضرت ﷺ نے ہر دو میں صلح کا ارشاد فرمایا، اسی سے مقصد باب ثابت ہوا۔
حافظ ؒنے کہا، ان لوگوں کے نام معلوم نہیں ہوئے۔
ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ آپ نے اس شخص کو پوچھا تھا وہ کہاں ہے جو اچھی بات نہ کرنے کے لیے قسم کھارہا تھا۔
گویا آپ نے اس کے فعل کو برا سمجھا اور صلح کا اشارہ کیا۔
وہ سمجھ گیا اور آپ کے پوچھتے ہی خود بخود کہنے لگا میرا مقروض جو چاہے وہ مجھ کو منظور ہے۔
اس شخص نے آنحضرت ﷺ کے ادب و احترام میں فوراً ہی آپ کا اشارہ پاکر مقروض کے قرض میں تخفیف کا اعلان کردیا۔
بڑوں کے احترام میں انسان اپنا کچھ نقصان بھی برداشت کرلے تو بہتر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2705   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2705  
2705. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے دروازے پر دو جھگڑنے والوں کی آوازیں سنیں جو بلند ہورہی تھیں۔ واقعہ یہ تھا کہ ان میں سے ایک دوسرے سے قرض میں کمی کرنے اور تقاضے میں کچھ نرمی برتنے کے لیے کہہ رہا تھا جبکہ دوسرا کہتاتھا کہ اللہ کی قسم!میں ایسا نہیں کروں گا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا: اس بات پر اللہ کی قسم اٹھانے والے صاحب کہاں ہیں جو کہتے ہیں کہ میں نیکی کاکام نہیں کروں گا؟ قسم اٹھانے والے نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!میں موجود ہوں۔ اب میرا بھائی جو چاہتا ہے مجھے وہی پسند ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2705]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ نے دریافت فرمایا:
وہ کہاں ہے جو اچھی بات نہ کرنے کے لیے قسم اٹھا رہا تھا؟ گویا آپ ﷺ نے اس فعل کو برا خیال کیا اور اسے صلح کا مشورہ دیا۔
وہ آپ کے اشارے کو سمجھ گیا اور خود بہ خود کہنے لگا:
میرا مقروض جو چاہے مجھے منظور ہے۔
(2)
امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ حاکم ایسے فیصلے کا حکم دے سکتا ہے جس میں فریقین کی بھلائی ہو اگرچہ کسی کے حق ادائیگی میں دیر ہو جائے بشرطیکہ اس کا زیادہ نقصان نہ ہو۔
اگر فریق ثانی راضی نہ ہو تو حاکم مقروض کو پورا حق ادا کرنے کا حکم دیا، چنانچہ صاحب واقعہ نے رسول اللہ ﷺ کا ادب و احترام کرتے ہوئے آپ کا اشارہ پا کر مقروض کے قرض میں کمی کا اعلان کر دیا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2705