سنن ترمذي
كتاب الصلاة -- کتاب: نماز کے احکام و مسائل
114. باب مَا جَاءَ فِي وَصْفِ الصَّلاَةِ
باب: نماز کے طریقے کا بیان۔
حدیث نمبر: 302
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَلِيِّ بْنِ يَحْيَى بْنِ خَلَّادِ بْنِ رَافِعٍ الزُّرَقِيِّ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَمَا هُوَ جَالِسٌ فِي الْمَسْجِدِ يَوْمًا، قَالَ رِفَاعَةُ: وَنَحْنُ مَعَهُ إِذْ جَاءَهُ رَجُلٌ كَالْبَدَوِيِّ فَصَلَّى فَأَخَفَّ صَلَاتَهُ ثُمَّ انْصَرَفَ، فَسَلَّمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَعَلَيْكَ فَارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ، فَرَجَعَ فَصَلَّى ثُمَّ جَاءَ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ، فَقَالَ: وَعَلَيْكَ فَارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ، فَفَعَلَ ذَلِكَ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا كُلُّ ذَلِكَ يَأْتِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيُسَلِّمُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَقُولُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَعَلَيْكَ فَارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ، فَخَافَ النَّاسُ وَكَبُرَ عَلَيْهِمْ أَنْ يَكُونَ مَنْ أَخَفَّ صَلَاتَهُ لَمْ يُصَلِّ "، فَقَالَ الرَّجُلُ فِي آخِرِ ذَلِكَ: فَأَرِنِي وَعَلِّمْنِي فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ أُصِيبُ وَأُخْطِئُ، فَقَالَ: " أَجَلْ إِذَا قُمْتَ إِلَى الصَّلَاةِ فَتَوَضَّأْ كَمَا أَمَرَكَ اللَّهُ ثُمَّ تَشَهَّدْ وَأَقِمْ فَإِنْ كَانَ مَعَكَ قُرْآنٌ فَاقْرَأْ وَإِلَّا فَاحْمَدِ اللَّهَ وَكَبِّرْهُ وَهَلِّلْهُ ثُمَّ ارْكَعْ فَاطْمَئِنَّ رَاكِعًا ثُمَّ اعْتَدِلْ قَائِمًا ثُمَّ اسْجُدْ فَاعْتَدِلْ سَاجِدًا ثُمَّ اجْلِسْ فَاطْمَئِنَّ جَالِسًا ثُمَّ قُمْ فَإِذَا فَعَلْتَ ذَلِكَ فَقَدْ تَمَّتْ صَلَاتُكَ وَإِنِ انْتَقَصْتَ مِنْهُ شَيْئًا انْتَقَصْتَ مِنْ صَلَاتِكَ " قَالَ: وَكَانَ هَذَا أَهْوَنَ عَلَيْهِمْ مِنَ الْأَوَّلِ، أَنَّهُ مَنِ انْتَقَصَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا انْتَقَصَ مِنْ صَلَاتِهِ وَلَمْ تَذْهَبْ كُلُّهَا. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , وَعَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ رِفَاعَةَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ.
رفاعہ بن رافع رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ایک دن مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے، ہم بھی آپ کے ساتھ تھے، اسی دوران ایک شخص آپ کے پاس آیا جو بدوی لگ رہا تھا، اس نے آ کر نماز پڑھی اور بہت جلدی جلدی پڑھی، پھر پلٹ کر آیا اور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو سلام کیا تو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اور تم پر بھی سلام ہو، واپس جاؤ پھر سے نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی، تو اس شخص نے واپس جا کر پھر سے نماز پڑھی، پھر واپس آیا اور آ کر اس نے آپ کو سلام کیا تو آپ نے پھر فرمایا: اور تمہیں بھی سلام ہو، واپس جاؤ اور پھر سے نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی، اس طرح اس نے دو بار یا تین بار کیا ہر بار وہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس آ کر آپ کو سلام کرتا اور آپ فرماتے: تم پر بھی سلام ہو، واپس جاؤ پھر سے نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی، تو لوگ ڈرے اور ان پر یہ بات گراں گزری کہ جس نے ہلکی نماز پڑھی اس کی نماز ہی نہیں ہوئی، آخر اس آدمی نے عرض کیا، آپ ہمیں (پڑھ کر) دکھا دیجئیے اور مجھے سکھا دیجئیے، میں انسان ہی تو ہوں، میں صحیح بھی کرتا ہوں اور مجھ سے غلطی بھی ہو جاتی ہے، تو آپ نے فرمایا: جب تم نماز کے لیے کھڑے ہونے کا ارادہ کرو تو پہلے وضو کرو جیسے اللہ نے تمہیں وضو کرنے کا حکم دیا ہے، پھر اذان دو اور تکبیر کہو اور اگر تمہیں کچھ قرآن یاد ہو تو اسے پڑھو ورنہ «الحمد لله»، «الله أكبر» اور «لا إله إلا الله» کہو، پھر رکوع میں جاؤ اور خوب اطمینان سے رکوع کرو، اس کے بعد بالکل سیدھے کھڑے ہو جاؤ، پھر سجدہ کرو، اور خوب اعتدال سے سجدہ کرو، پھر بیٹھو اور خوب اطمینان سے بیٹھو، پھر اٹھو، جب تم نے ایسا کر لیا تو تمہاری نماز پوری ہو گئی اور اگر تم نے اس میں کچھ کمی کی تو تم نے اتنی ہی اپنی نماز میں سے کمی کی، راوی (رفاعہ) کہتے ہیں: تو یہ بات انہیں پہلے سے آسان لگی کہ جس نے اس میں سے کچھ کمی کی تو اس نے اتنی ہی اپنی نماز سے کمی کی، پوری نماز نہیں گئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- رفاعہ بن رافع کی حدیث حسن ہے، رفاعہ سے یہ حدیث دوسری سند سے بھی مروی ہے،
۲- اس باب میں ابوہریرہ اور عمار بن یاسر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 148 (857 - 861)، سنن النسائی/الأذان 28 (668)، والتطبیق 77 (1137)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 57 (460)، (تحفة الأشراف: 3604)، مسند احمد (4/340)، سنن الدارمی/الصلاة 78 (1368) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (804) ، صفة الصلاة / الأصل، صحيح أبي داود (803 - 807) ، الإرواء (1 / 321 - 322)
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1054  
´رکوع میں دعا نہ پڑھنے کی رخصت کا بیان۔`
رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ ایک شخص مسجد میں داخل ہوا، اور اس نے نماز پڑھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے دیکھ رہے تھے لیکن وہ جان نہیں رہا تھا، وہ نماز سے فارغ ہوا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور آپ کو سلام کیا، تو آپ نے سلام کا جواب دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جاؤ تم پھر سے نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی، میں نہیں جان سکا کہ اس نے دوسری بار میں یا تیسری بار میں کہا کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ پر قرآن نازل کیا ہے، میں اپنی کوشش کر چکا، آپ مجھے نماز پڑھنا سکھا دیں، اور پڑھ کر دکھا دیں کہ کیسے پڑھوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم نماز کا ارادہ کرو تو وضو کرو اور اچھی طرح وضو کرو، پھر قبلہ رخ کھڑے ہو، پھر اللہ اکبر کہو، پھر قرأت کرو، پھر رکوع کرو یہاں تک کہ تم رکوع کی حالت میں مطمئن ہو جاؤ، پھر اٹھو یہاں تک کہ سیدھے کھڑے ہو جاؤ، پھر سجدہ کرو یہاں تک کہ سجدہ کی حالت میں مطمئن ہو جاؤ، پھر اپنا سر اٹھاؤ یہاں تک کہ اطمینان سے بیٹھ جاؤ، پھر سجدہ کرو یہاں تک کہ سجدہ کی حالت میں مطمئن ہو جاؤ، جب تم ایسا کرو گے تو اپنی نماز پوری کر لو گے، اور اس میں جو کمی کرو گے تو اپنی نماز ہی میں کمی کرو گے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1054]
1054۔ اردو حاشیہ:
➊ مصنف رحمہ اللہ نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ رکوع اور سجدے میں تسبیحات فرض نہیں ہیں کیونکہ اس حدیث میں ان کا ذکر نہیں۔ اگر اتفاقاً یا نسیاناً رہ جائیں تو نماز ہو جائے گی، البتہ قصدا نہ چھوڑی جائیں لیکن اہل علم نے سجدے اور رکوع کی تسبیحات بربنائے دلیل واجب قرار دی ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی طرح نماز پڑھنے کا حکم ہے۔ [صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 631] نیز عدم ذکر عدم وجود کو مستلزم نہیں۔ جس شخص سے تسبیحات اتفاقاً یا نسیانا رہ جائیں، وہ نماز کے آخر میں سجود سہو کرے گا۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو کتاب السہو کا ابتدائیہ)۔
➋ مذکورہ حدیث میں آپ نے فرائض اور واجبات بتلائے ہیں یا وہ چیزیں ذکر کی ہیں جو وہ شخص صحیح ادا نہیں کرتا تھا جس کی وجہ سے اس کی نماز نہ ہوتی تھی۔ اس روایت کی رو سے بھی رکوع، سجدے، قومے اور جلسے میں اطمینان ضروری ہے۔ ائمہ احناف میں سے امام ابویوسف رحمہ اللہ اس کے قائل ہیں، دیگر احناف اطمینان کو ضروری نہیں سمجھتے جبکہ حدیث ان کے موقف کا رد کرتی ہے۔
➌ اس حدیث کے دوسرے طریق میں سورۂ فاتحہ پڑھنے کا صریح حکم ہے، لہٰذا یہاں قرآن مجید سے مراد سورۂ فاتحہ ہی ہے۔ دیکھیے: [سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 859]
نماز میں کمی کرے گا۔ یہ الفاظ، ابتدائی الفاظ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ کے مقابلے میں نرم ہیں مگر اکثر چیزوں کا ترک نماز نہ ہونے کو مستلزم ہے۔ مزید فوائد و مسائل کے لیے دیکھیے: (حدیث: 885)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1054   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث460  
´اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق وضو کرنے کا بیان۔`
رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی کی کوئی نماز پوری نہیں ہوتی جب تک کہ کامل وضو نہ کرے جیسے اللہ تعالیٰ نے اسے حکم دیا ہے کہ اپنے چہرے کو اور دونوں ہاتھوں کو کہنیوں سمیت اور دونوں پیروں کو ٹخنوں سمیت دھوئے، اور اپنے سر کا مسح کرے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 460]
اردو حاشہ:
(1)
وضو میں نقص سے نمازمتاثر ہوتی ہےاور اس کا پورا ثواب نہیں ملتا۔

(2)
وضو کا کامل طریقہ وہ ہے جو گزشتہ احادیث میں تفصیل سے بیان کیا جاچکا ہے۔

(3)
یہ حدیث سورہ مائدہ کی مذکورہ آیت کی تفسیر ہے جس سے واضح ہےکہ قرآن مجید میں بھی پیروں کے دھونے کا حکم ہے نہ کہ مسح کرنے کا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 460