سنن ترمذي
كتاب الصلاة -- کتاب: نماز کے احکام و مسائل
139. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الْمُرُورِ بَيْنَ يَدِيِ الْمُصَلِّي
باب: نمازی کے آگے سے گزرنے کی کراہت کا بیان۔
حدیث نمبر: 336
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ خَالِدٍ الْجُهَنِيَّ أَرْسَلَهُ إِلَى أَبِي جُهَيْمٍ يَسْأَلُهُ: مَاذَا سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَارِّ بَيْنَ يَدَيِ الْمُصَلِّي؟ فَقَالَ أَبُو جُهَيْمٍ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْ يَعْلَمُ الْمَارُّ بَيْنَ يَدَيِ الْمُصَلِّي مَاذَا عَلَيْهِ لَكَانَ أَنْ يَقِفَ أَرْبَعِينَ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْهِ " قَالَ أَبُو النَّضْرِ: لَا أَدْرِي، قَالَ: أَرْبَعِينَ يَوْمًا أَوْ شَهْرًا أَوْ سَنَةً. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ , وَأَبِي هُرَيْرَةَ , وَابْنِ عُمَرَ , وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍوَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ أَبِي جُهَيْمٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " لَأَنْ يَقِفَ أَحَدُكُمْ مِائَةَ عَامٍ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْ أَخِيهِ وَهُوَ يُصَلِّي " وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ كَرِهُوا الْمُرُورَ بَيْنَ يَدَيِ الْمُصَلِّي، وَلَمْ يَرَوْا أَنَّ ذَلِكَ يَقْطَعُ صَلَاةَ الرَّجُلِ، وَاسْمُ أَبِي النَّضْرِ: سَالِمٌ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ الْمَدِينِيِّ.
بسر بن سعید سے روایت ہے کہ زید بن خالد جہنی نے انہیں ابوجہیم رضی الله عنہ کے پاس بھیجا تاکہ وہ ان سے یہ پوچھیں کہ انہوں نے مصلی کے آگے سے گزرنے والے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا سنا ہے؟ تو ابوجہیم رضی الله عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: اگر مصلی کے آگے سے گزرنے والا جان لے کہ اس پر کیا (گناہ) ہے تو اس کے لیے مصلی کے آگے سے گزرنے سے چالیس … تک کھڑا رہنا بہتر ہو گا۔ ابونضر سالم کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم کہ انہوں نے چالیس دن کہا، یا چالیس مہینے کہا یا چالیس سال۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوجہیم رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابو سعید خدری، ابوہریرہ، ابن عمر اور عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: تم میں سے کسی کا سو سال کھڑے رہنا اس بات سے بہتر ہے کہ وہ اپنے بھائی کے سامنے سے گزرے اور وہ نماز پڑھ رہا ہو،
۴- اہل علم کے نزدیک عمل اسی پر ہے، ان لوگوں نے نمازی کے آگے سے گزرنے کو مکروہ جانا ہے، لیکن ان کی یہ رائے نہیں کہ آدمی کی نماز کو باطل کر دے گا۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصلاة 101 (510)، صحیح مسلم/الصلاة 48 (507)، سنن ابی داود/ الصلاة 109 (701)، سنن النسائی/القبلة 8 (757)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 37 (945)، (تحفة الأشراف: 11884)، موطا امام مالک/قصرالصلاة 10 (34)، مسند احمد (4/169)، سنن الدارمی/الصلاة 130 (1456) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (945)
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 180  
´نمازی کے سترے کا بیان`
«. . . قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏لو يعلم المار بين يدي المصلي ماذا عليه من الإثم لكان ان يقف اربعين خيرا له من ان يمر بين يديه . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر نمازی کے آگے سے گزرنے والے کو یہ معلوم ہو جائے کہ ایسا کرنے کا کتنا گناہ ہے تو اس کو نمازی کے آگے سے گزرنے کے مقابلے میں چالیس (برس) تک وہاں کھڑا رہنا زیادہ پسند ہ . . . [بلوغ المرام/كتاب الصلاة: 180]

لغوی تشریح:
«بَابُ سُتْرَةِ الْمُصَلِّي» سترہ کے سین پر ضمہ اور تا ساکن ہے۔ جسے نمازی اپنی سجدہ گاہ کے آگے نصب کر لے یا کھڑا کر لے یا رکاوٹ بنا لے، خواہ دیوار ہو، ستون ہو، نیزہ ہو یا لکڑی وغیرہ، تاکہ یہ سترہ گزرنے والے اور اس نمازی کے درمیان حائل رہے۔
«اَلْمَارُّ»، «مُرُور» سے اسم فاعل ہے۔ گزرنے والا۔
«خَرِيفًا» بمعنی سال۔ خریف، ربیع کے بالمقابل ایک فصل کا نام ہے اور یہ سال بھر میں ایک ہی مرتبہ وصول ہوتی ہے، اس لیے یہاں جز بول کر کل مراد لیا گیا ہے۔ یہ مجاز مرسل ہے۔

راویٔ حدیث:
(سیدنا ابوجہیم بن حارث رضی اللہ عنہ) کہا گیا ہے کہ ان کا نام عبداللہ بن حارث بن صمّہ انصاری ہے۔ خزرج قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ مشہور صحابی ہیں۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت تک زندہ رہے۔ «جُهَيْم»، «جَهْم» کی تصغیر ہے اور «الصِمَّة» صاد کے نیچے کسرہ اور میم کی تشدید کے ساتھ ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 180   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 701  
´نمازی کے سامنے سے گزرنا منع ہے۔`
بسر بن سعید کہتے ہیں کہ زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ نے انہیں ابوجہیم رضی اللہ عنہ کے پاس یہ پوچھنے کے لیے بھیجا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نمازی کے آگے سے گزرنے والے کے بارے میں کیا سنا ہے؟ تو ابوجہیم رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: اگر نمازی کے سامنے سے گزرنے والا یہ جان لے کہ اس پر کس قدر گناہ ہے، تو اس کو نمازی کے سامنے گزرنے سے چالیس (دن یا مہینے یا سال تک) وہیں کھڑا رہنا بہتر لگتا۔‏‏‏‏ ابونضر کہتے ہیں: مجھے معلوم نہیں کہ انہوں نے چالیس دن کہا یا چالیس مہینے یا چالیس سال۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب السترة /حدیث: 701]
701۔ اردو حاشیہ:
➊ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جان بوجھ کر نمازی کے آگے سے گزرنا کتنا سخت گنا ہ ہے۔ نماز خواہ فرض ہو یا نفل۔
➋ چالیس کے عدد کے بعد دن، مہینے یا سال کا ذکر نہ ہونا اس سزا کی شدت کے لیے ہے۔ تاہم بعض ضعیف طرق میں «خريف» سال کا لفظ آیا ہے، اس سے گناہ کی شناعت و قباحت واضح ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 701   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 757  
´نمازی اور سترہ کے درمیان گزرنے کی شناعت کا بیان۔`
بسر بن سعید سے روایت ہے کہ زید بن خالد نے انہیں ابوجہیم رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا، وہ ان سے پوچھ رہے تھے کہ انہوں نے نمازی کے سامنے سے گزرنے والے کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا کہتے سنا ہے؟ تو ابوجہیم رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر نمازی کے سامنے سے گزرنے والا جانتا کہ اس پر کیا گناہ ہے تو وہ چالیس (دن، مہینہ یا سال) تک کھڑا رہنے کو بہتر اس بات سے جانتا کہ وہ اس کے سامنے سے گزرے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 757]
757 ۔ اردو حاشیہ:
➊ اس روایت میں چالیس کے بعد سال کا ذکر نہیں۔ مسند بزار میں خریف کا لفظ ہے، اس کے معنی سال کے ہیں لیکن یہ لفظ سنداً ضعیف اور ناقابل حجت ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: [تمام المنة للألباني، ص: 302، و فتح الباري: 585/1، حدیث: 510]
ایک حدیث میں «مائة عام» سو سال کھڑے رہنے کا ذکر ہے، لیکن اس کی سند میں عبیداللہ بن عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن موہب ضعیف ہے اور اس کا چچا عبیداللہ بن عبداللہ بن موہب مجہول ہے۔ دیکھیے: [تھذیب الکمال: 80/19]
شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے ضعیف ابن ماجہ میں ضعیف کہا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ معدود کی صراحت درست نہیں ہے۔ معدود مبہم رکھا گیا ہے۔ عربی میں اس طریقے سے زجرو توبیخ اور معاملے کی سنگینی کا بیان مقصود ہوتا ہے بہرحال مقصود عدد نہیں کثرت اور مبالغہ ہے۔ واللہ أعلم۔
➋ چالیس یا سو سال تک رکے رہنے کی بات بھی یفرض محال ہے ورنہ اتنی دیر تک ایک انسان کا نماز پڑھنا ایک جگہ رکے رہنا قابل تصور نہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 757