سنن ترمذي
أبواب الوتر​ -- کتاب: صلاۃ وترکے ابواب
18. باب مَا جَاءَ فِي صَلاَةِ الاِسْتِخَارَةِ
باب: صلاۃ استخارہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 480
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الْمَوَالِي، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُنَا الِاسْتِخَارَةَ فِي الْأُمُورِ كُلِّهَا كَمَا يُعَلِّمُنَا السُّورَةَ مِنَ الْقُرْآنِ، يَقُولُ: " إِذَا هَمَّ أَحَدُكُمْ بِالْأَمْرِ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ مِنْ غَيْرِ الْفَرِيضَةِ، ثُمَّ لِيَقُلِ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ وَأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِيمِ، فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ، وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ، وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ، اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ خَيْرٌ لِي فِي دِينِي وَمَعِيشَتِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي، أَوْ قَالَ: فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ، فَيَسِّرْهُ لِي ثُمَّ بَارِكْ لِي فِيهِ، وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ شَرٌّ لِي فِي دِينِي وَمَعِيشَتِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي، أَوْ قَالَ: فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ فَاصْرِفْهُ عَنِّي وَاصْرِفْنِي عَنْهُ، وَاقْدُرْ لِي الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ، ثُمَّ أَرْضِنِي بِهِ، قَالَ: وَيُسَمِّي حَاجَتَهُ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ , وَأَبِي أَيُّوبَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي الْمَوَالِي، وَهُوَ شَيْخٌ مَدِينِيٌّ ثِقَةٌ، رَوَى عَنْهُ سُفْيَانُ حَدِيثًا، وَقَدْ رَوَى عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ الْأَئِمَّةِ، وَهُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَبِي الْمَوَالِي.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ہر معاملے میں استخارہ کرنا ۱؎ اسی طرح سکھاتے جیسے آپ ہمیں قرآن کی سورتیں سکھاتے تھے۔ آپ فرماتے: تم میں سے کوئی شخص جب کسی کام کا ارادہ کرے تو دو رکعت پڑھے، پھر کہے: «اللهم إني أستخيرك بعلمك وأستقدرك بقدرتك وأسألك من فضلك العظيم فإنك تقدر ولا أقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعيشتي وعاقبة أمري أو قال في عاجل أمري» یا کہے «فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ فيسره لي ثم بارك لي فيه وإن كنت تعلم أن هذا الأمر شر لي في ديني ومعيشتي وعاقبة أمري» یا کہے «في عاجل أمري وآجله فاصرفه عني واصرفني عنه واقدر لي الخير حيث كان ثم أرضني به» اے اللہ! میں تیرے علم کے ذریعے تجھ سے بھلائی طلب کرتا ہوں، اور تیری طاقت کے ذریعے تجھ سے طاقت طلب کرتا ہوں، اور تجھ سے تیرے فضل کا سوال کرتا ہوں، تو قدرت رکھتا ہے اور میں قدرت نہیں رکھتا، تو علم والا ہے اور میں لا علم ہوں، تو تمام غیبوں کو خوب جاننے والا ہے، اے اللہ اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے حق میں، میرے دین، میری روزی اور انجام کے اعتبار سے (یا آپ نے فرمایا: یا میری دنیا اور آخرت کے لحاظ سے) بہتر ہے، تو اسے تو میرے لیے آسان بنا دے اور مجھے اس میں برکت عطا فرما، اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے حق میں، میرے دین، میری روزی اور انجام کے اعتبار سے یا فرمایا میری دنیا اور آخرت کے لحاظ سے میرے لیے برا ہے تو اسے تو مجھ سے پھیر دے اور مجھے اس سے پھیر دے اور میرے لیے خیر مقدر فرما دے وہ جہاں بھی ہو، پھر مجھے اس پر راضی کر دے۔ آپ نے فرمایا: اور اپنی حاجت کا نام لے ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- جابر رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح غریب ہے ہم اسے صرف عبدالرحمٰن بن ابی الموالی کی روایت سے جانتے ہیں، یہ ایک مدنی ثقہ شیخ ہیں، ان سے سفیان نے بھی ایک حدیث روایت کی ہے، اور عبدالرحمٰن سے دیگر کئی ائمہ نے بھی روایت کی ہے، یہی عبدالرحمٰن بن زید بن ابی الموالی ہیں،
۲- اس باب میں عبداللہ بن مسعود اور ابوایوب انصاری رضی الله عنہما سے احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/التہجد 25 (1162)، والدعوات 48 (8362)، التوحید 10 (7390)، سنن ابی داود/ الصلاة 366 (1538)، سنن النسائی/النکاح 27 (3255)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 188 (1383)، (تحفة الأشراف: 3055)، مسند احمد (3/344) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: استخارہ کے لغوی معنی خیر طلب کرنے کے ہیں، چونکہ اس دعا کے ذریعہ انسان اللہ تعالیٰ سے خیر و بھلائی طلب کرتا ہے اس لیے اسے دعا استخارہ کہا جاتا ہے، اس کا مسنون طریقہ یہی ہے کہ فرض نماز کے علاوہ دو رکعت پڑھنے کے بعد یہ دعا پڑھی جائے، استخارے کا تعلق صرف مباح کاموں سے ہے، فرائض و واجبات اور سنن و مستحبات کی ادائیگی اور محرمات و مکروہات شرعیہ سے اجتناب ہر حال میں ضروری ہے، ان میں استخارہ نہیں ہے۔
۲؎: یعنی: لفظ «هذا الأمر» (یہ کام) کی جگہ اپنی ضرورت کا نام لے۔ اور کسی دوسرے شخص کے لیے استخارہ کرنا کسی بھی حدیث سے ثابت نہیں ہے، ہر آدمی اپنے لیے استخارہ خود کرے تاکہ اپنی حاجت اپنے رب کریم سے خود باسلوب احسن بیان کر سکے اور اسے اپنے رب سے خود مانگنے کی عادت پڑے، یہ جو آج کل دوسروں سے استخارہ کروانے والا عمل جاری ہو چکا ہے یہ نری بدعت ہے، استخارہ کے بعد سو جانا اور خواب دیکھنا وغیرہ بھی نہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور نہ ہی صحابہ کرام و تابعین عظام سے بلکہ استخارہ کے بعد کہ جب اسے ایک، تین پانچ یا سات بار کیا جائے، دل کا اطمینان، مطلوبہ عمل کے لیے جس طرف ہو جائے اسے آدمی اختیار کر لے، خواب میں بھی اس کی وضاحت ہو سکتی ہے مگر خواب استخارہ کا جزء نہیں ہے، عورتیں بھی استخارہ خود کر سکتی ہیں، کہیں پر ممانعت نہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1383)
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1383  
´نماز استخارہ کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز استخارہ سکھاتے تھے جس طرح قرآن کی سورۃ سکھایا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: جب کوئی شخص کسی کام کا ارادہ کرے، تو فرض کے علاوہ دو رکعت نفل پڑھے، پھر یہ دعا پڑھے: «اللهم إني أستخيرك بعلمك وأستقدرك بقدرتك وأسألك من فضلك العظيم فإنك تقدر ولا أقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب اللهم إن كنت تعلم هذا الأمر (پھر متعلق کام یا چیز کا نام لے) خيرا لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري أو خيرا لي في عاجل أمري وآجله- فاقدره لي ويسره لي وبارك لي فيه وإن كنت تعلم (پھر ویسا ہی کہے جی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1383]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  استخارے کا مطلب اللہ سے خیر اور بہتری کی درخواست ہے۔
جب کسی کام کا ارادہ ہوتو اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرلینا بہتر ہے۔
کہ اگر اس کا انجام میرے لئے بہتر ہے تو یہ خیریت سے مکمل ہو ورنہ جوکچھ میرے لئے بہتر ہو وہ حاصل ہوجائے۔

(2)
استخارے کا مسنون طریقہ یہی ہے کہ دو رکعت نماز پڑھ کر دعا کی جائے۔
اس کے علاوہ جو مختلف قسم کے استخارے مشہور ہیں۔
وہ سب غیر مسنون ہیں۔

(3)
استخارے کے بعد خواب آنا شرط نہیں بلکہ کام کا انتظام کرنا چاہیے۔
اگر بہتر ہوگا تو خیریت سے مکمل ہوجائےگا۔
ورنہ کوئی رکاوٹ آئے تو سمجھ لینا چاہیے کہ اس کا اس انداز سے مکمل ہونا میرے حق میں بہتر نہیں۔
اسی طرح اگر استخارے کے بعد اس کام پر دل مطمئن ہوجائے۔
تو وہ کام کرلیا جائے ورنہ چھوڑ دیا جائے۔

(4)
دعا میں ھٰذَ الأَمْر کی جگہ مطلوبہ کام کا نام لیناچاہیے۔
مثلاً ھٰذاَ النِّکَاح (یہ نکاح)
ھذ السفر (یہ سفر)
ھذہ التجارۃ (یہ تجارت وغیرہ یا ھٰذَ الأَمْر امر کہتے وقت دل میں اس کاتصور کرلیا جائے۔

(5)
  مجھے اس سے پھیر دے کامطلب یہ ہے کہ میں وہ کام نہ کروں اور دل میں بھی یہ خیال نہ رہے کہ کاش یوں کرلیتا تو بہتر ہوتا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1383   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 480  
´صلاۃ استخارہ کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ہر معاملے میں استخارہ کرنا ۱؎ اسی طرح سکھاتے جیسے آپ ہمیں قرآن کی سورتیں سکھاتے تھے۔ آپ فرماتے: تم میں سے کوئی شخص جب کسی کام کا ارادہ کرے تو دو رکعت پڑھے، پھر کہے: «اللهم إني أستخيرك بعلمك وأستقدرك بقدرتك وأسألك من فضلك العظيم فإنك تقدر ولا أقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعيشتي وعاقبة أمري أو قال في عاجل أمري» یا کہے «فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ فيسره لي ثم بارك لي فيه وإن كنت تعلم أن هذا الأمر شر لي في ديني ومعيشتي وعاقبة أمري» ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/أبواب الوتر​/حدیث: 480]
اردو حاشہ:
1؎:
استخارہ کے لغوی معنی خیر طلب کرنے کے ہیں،
چونکہ اس دعا کے ذریعہ انسان اللہ تعالیٰ سے خیر و بھلائی طلب کرتا ہے اس لیے اسے دعائے استخارہ کہا جاتا ہے،
اس کا مسنون طریقہ یہی ہے کہ فرض نماز کے علاوہ دو رکعت پڑھنے کے بعد یہ دعا پڑھی جائے،
استخارے کا تعلق صرف مباح کاموں سے ہے،
فرائض و واجبات اور سنن و مستحبات کی ادائیگی اور محرمات و مکروہاتِ شرعیہ سے اجتناب ہر حا ل میں ضروری ہے،
ان میں استخارہ نہیں ہے۔

2؎:
یعنی:
لفظ ((هَذَا الْأَمْرَ)) یہ کام کی جگہ اپنی ضرورت کا نام لے۔
اور کسی دوسرے شخص کے لیے استخارہ کرنا کسی بھی حدیث سے ثابت نہیں ہے،
ہر آدمی اپنے لیے استخارہ خود کرے تاکہ اپنی حاجت اپنے رب کریم سے خود باسلوب احسن بیان کر سکے اور اُسے اپنے رب سے خود مانگنے کی عادت پڑے،
یہ جو آج کل دوسروں سے استخارہ کروانے والا عمل جاری ہو چکا ہے یہ نری بدعت ہے،
استخارہ کے بعد سو جانا اور خواب دیکھنا وغیرہ بھی نہ نبی اکرم ﷺ سے ثابت ہے اور نہ ہی صحابہ کرام و تابعین عظام سے بلکہ استخارہ کے بعد کہ جب اسے ایک،
تین پانچ یا سات بار کیا جائے،
دل کا اطمینان،
مطلوبہ عمل کے لیے جس طرف ہو جائے اُسے آدمی اختیار کر لے،
خواب میں بھی اس کی وضاحت ہو سکتی ہے مگر خواب استخارہ کا جزء نہیں ہے،
عورتیں بھی استخارہ خود کر سکتی ہیں،
کہیں پر ممانعت نہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 480   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1538  
´استخارہ کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں استخارہ سکھاتے جیسے ہمیں قرآن کی سورۃ سکھاتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے فرماتے: جب تم میں سے کوئی کسی کام کا ارادہ کرے تو فرض کے علاوہ دو رکعت نفل پڑھے اور یہ دعا پڑھے: «اللهم إني أستخيرك بعلمك وأستقدرك بقدرتك وأسألك من فضلك العظيم فإنك تقدر ولاأقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر ۱؎ خير لي في ديني ومعاشي ومعادي وعاقبة أمري فاقدره لي ويسره لي وبارك لي فيه اللهم وإن كنت تعلمه شرا لي فاصرفني عنه واصرفه عني واقدر لي الخير حيث كان ثم رضني به» اے اللہ! میں تجھ سے تیرے علم کے وسیلے سے خیر طلب کرتا ہوں، تجھ سے تیری قدرت کے وسیلے سے قوت طلب کرتا ہوں، تجھ سے تیرے بڑے فضل میں سے کچھ کا سوال کرتا ہوں، تو قدرت رکھتا ہے مجھ کو قدرت نہیں۔ تو جانتا ہے، میں نہیں جانتا، تو پوشیدہ چیزوں کا جاننے والا ہے، اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ معاملہ یا یہ کام ۱؎ میرے واسطے دین و دنیا، آخرت اور انجام کار کے لیے بہتر ہے تو اسے میرا مقدر بنا دے اور اسے میرے لیے آسان بنا دے اور میرے لیے اس میں برکت عطا کر، اے اللہ! اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے لیے دین، دنیا، آخرت اور انجام میں برا ہے تو مجھ کو اس سے پھیر دے اور اسے مجھ سے پھیر دے اور جہاں کہیں بھلائی ہو، اسے میرے لیے مقدر کر دے، پھر مجھے اس پر راضی فرما۔‏‏‏‏ ابن مسلمہ اور ابن عیسیٰ کی روایت میں «عن محمد بن المنكدر عن جابر» ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1538]
1538. اردو حاشیہ:
➊ استخارے کے معنی ہیں خیر مانگنا اور اس [خیر]
کےلئے آسانی کی توفیق طلب کرنا۔ اور یہ ایسے امور میں ہوتا ہے۔ جن میں خیر اورشر کے دونوں پہلووں کا احتمال ہو۔ فرائض اور واجبات شرعیہ میں استخارے کے کوئی معنی نہیں۔ ہاں وقت وکیفیت کے متعلق استخارہ ہوسکتا ہے۔ مثلا ً یا اللہ حج کو اس سال جائوں۔ یا آئندہ سال۔ فضائی راستہ اختیار کروں یا بری یا بحری وغیرہ۔
➋ استخارے کا یہی طریقہ مشروع اور سنت ہے۔ یہ نماز اور دُعا اوقات کراہت کے علاوہ کسی بھی وقت ہوسکتی ہے۔ اس سے انسان کا اضطراب ختم ااور کسی ایک جانب پر استقرار حاصل ہو جاتا ہے۔ تب انسان کو وہ کام کرگزرنا چاہیے۔ اللہ اس میں برکت دے گا۔ اور اگر اضطراب قائم رہے تو مسلسل کئی روز تک یہ عمل دہرانا چاہیے۔ ان شاء اللہ کسی ایک پہلو پر دل ٹک جائے گا۔ خیال رہے کہ یہ کوئی ضروری نہیں کہ خواب ہی میں نظرآئے۔۔۔ اور ایسا بھی ہو سکتا ہے۔۔۔ کچھ لوگ دوسروں سے استخارہ کراتے ہیں۔ یہ بے معنی سی بات ہے۔ صاحب معاملہ کو خود نماز پڑھ کر دعا کرنی چاہیے۔ شریعت کا اصرار اسی امر پر ہے کہ ہر بندہ اپنے رب سے براہ راست تعلق قائم کرے۔
➌ اس دعا میں ھذا الأمر۔۔۔ کی جگہ اپنی حاجت کا نام لے۔ مثلا ھذا النکاح یا ھذا البیع وغیرہ یا ھذا الأمر پر پہنچ کر اپنے اس کام کی نیت مستحضر کرلے۔ جس کے لئے وہ استخارہ کررہا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1538