صحيح البخاري
كِتَاب الشُّرُوطِ -- کتاب: شرائط کے مسائل کا بیان
12. بَابُ الشُّرُوطِ مَعَ النَّاسِ بِالْقَوْلِ:
باب: لوگوں سے زبانی شرطیں طے کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2728
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ أَخْبَرَهُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يَعْلَى بْنُ مُسْلِمٍ، وَعَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍيَزِيدُ أَحَدُهُمَا عَلَى صَاحِبِهِ، وَغَيْرُهُمَا قَدْ سَمِعْتُهُ يُحَدِّثُهُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: إِنَّا لَعِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: حَدَّثَنِي أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مُوسَى رَسُولُ اللَّهِ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، قَالَ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا سورة الكهف آية 72 كَانَتِ الْأُولَى نِسْيَانًا، وَالْوُسْطَى شَرْطًا، وَالثَّالِثَةُ عَمْدًا، قَالَ لا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ وَلا تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا سورة الكهف آية 73 لَقِيَا غُلَامًا فَقَتَلَهُ، فَانْطَلَقَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ فَأَقَامَهُ سورة الكهف آية 77". قَرَأَهَا ابْنُ عَبَّاسٍ أَمَامَهُمْ مَلِكٌ.
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی، انہیں ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے یعلیٰ بن مسلم اور عمرو بن دینار نے خبر دی سعید بن جبیر سے اور ان میں ایک دوسرے سے زیادہ بیان کرتا ہے، ابن جریج نے کہا مجھ سے یہ حدیث یعلیٰ اور عمرو کے سوا اوروں نے بھی بیان کی، وہ سعید بن جبیر سے روایت کرتے ہیں کہ ہم ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر تھے۔ انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خضر سے جو جا کر ملے تھے وہ موسیٰ علیہ السلام تھے۔ پھر آخر تک حدیث بیان کی کہ خضر علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا کیا میں آپ کو پہلے ہی نہیں بتا چکا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے (موسیٰ علیہ السلام کی طرف سے) پہلا سوال تو بھول کر ہوا تھا، بیچ کا شرط کے طور پر اور تیسرا جان بوجھ کر ہوا تھا۔ آپ نے خضر سے کہا تھا کہ میں جس کو بھول گیا آپ اس میں مجھ سے مواخذہ نہ کیجئے اور نہ میرا کام مشکل بنائیے۔ دونوں کو ایک لڑکا ملا جسے خضر علیہ السلام نے قتل کر دیا وہ وہ آگے بڑھے تو انہیں ایک دیوار ملی جو گرنے والی تھی لیکن خضر علیہ السلام نے اسے درست کر دیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے «وراءهم ملك‏» «وراءهم‏» کے بجائے «أمامهم ملك‏.‏» پڑھا ہے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2728  
2728. حضرت ابی بن کعب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حضرت موسیٰ رسول اللہ ﷺ (ہی حضرت خضر ؑ کے ساتھی ہیں)، پھر آپ نے ان کے متعلق پورا واقعہ بیان کیا۔ حضرت خضر ؑ نےکہا: (جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:)کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ ہر گز صبر نہیں کر سکیں گے؟ حضرت موسیٰ ؑ کا پہلا اعتراض بھول چوک کی بنا پر تھا، دوسرا شرط کے طور پر اور تیسرا جان بوجھ کر چنانچہ فرمایا کہ جو بات میں نے بھول چوک کی بنا پر کہی اس کے متعلق آپ میری گرفت نہ کریں، اور مجھ پر میرے کام میں تنگی نہ ڈالیں۔ یہاں تک کہ دونوں ایک لڑکے سے ملے تو اس بندے(خضر ؑ)نے اسے قتل کردیا۔ پھر دونوں چل پڑے تو اس بستی میں ایک دیوار گرنے والی تھی جسے اس (خضر ؑ)نے سیدھا کر دیا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے وَرَاءَهُم مَّلِكٌ کی بجائے إمامهم مالك پڑھا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2728]
حدیث حاشیہ:
کہ ان کے آگے ایک بادشاہ تھا۔
حضرت خضر ؑ اور حضرت موسیٰ ؑ کے درمیان زبانی شرطیں ہوئیں، اسی سے مقصد باب ثابت ہوا۔
(امام بخاری اور کثیر علماءکے نزدیک حضرت خضر ؑ وفات پاچکے ہیں۔
)

واللہ أعلم بالصواب وإلیه المرجع والمآب
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2728   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2728  
2728. حضرت ابی بن کعب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حضرت موسیٰ رسول اللہ ﷺ (ہی حضرت خضر ؑ کے ساتھی ہیں)، پھر آپ نے ان کے متعلق پورا واقعہ بیان کیا۔ حضرت خضر ؑ نےکہا: (جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:)کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ ہر گز صبر نہیں کر سکیں گے؟ حضرت موسیٰ ؑ کا پہلا اعتراض بھول چوک کی بنا پر تھا، دوسرا شرط کے طور پر اور تیسرا جان بوجھ کر چنانچہ فرمایا کہ جو بات میں نے بھول چوک کی بنا پر کہی اس کے متعلق آپ میری گرفت نہ کریں، اور مجھ پر میرے کام میں تنگی نہ ڈالیں۔ یہاں تک کہ دونوں ایک لڑکے سے ملے تو اس بندے(خضر ؑ)نے اسے قتل کردیا۔ پھر دونوں چل پڑے تو اس بستی میں ایک دیوار گرنے والی تھی جسے اس (خضر ؑ)نے سیدھا کر دیا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے وَرَاءَهُم مَّلِكٌ کی بجائے إمامهم مالك پڑھا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2728]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت موسیٰ ؑ کا دوسرا اعتراض شرط کے طور پر تھا کہ اگر میں نے اس کے بعد اعتراض کیا تو آپ مجھے جدا کر دیں۔
حضرت موسیٰ اور حضرت خضر ؑ کے درمیان یہ شرط واقع ہوئی۔
اسے تحریر نہیں کیا گیا اور نہ اس کے متعلق کوئی گواہ ہی بنائے گئے بلکہ زبانی شرط طے پائی جس کا حضرت موسیٰ ؑ نے التزام کیا اور جب شرط کی خلاف ورزی ہوئی تو حضرت خضر ؑ نے فرمایا:
اب میرا اور تمہارا ساتھ ختم ہوا۔
اس پر حضرت موسیٰ ؑ نے کوئی اعتراض نہ کیا۔
(عمدة القاري: 625/9) (2)
پہلی بار موسیٰ ؑ نے بھول جانے کا عذر کیا جو یہ تھا:
مجھ سے جو بھول ہو گئی اس پر میرا مؤاخذہ نہ کرو۔
(الکھف73: 18)
دوسری بار انہوں نے شرط لگائی اور کہا:
اس کے بعد اگر میں نے کوئی بات پوچھی تو پھر مجھے اپنے ساتھ نہ رکھنا۔
(الکھف76: 18)
تیسری بار قصداً فرمایا:
اگر آپ چاہتے تو ان سے اس کی اجرت لے سکتے تھے۔
(الکھف77: 18)
اس روایت میں وہ آیات ذکر کی ہیں جو حصول مقصود کے لیے ضروری تھیں اگرچہ ان میں ترتیب نہیں پائی جاتی۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2728