ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”تم میں سے کوئی شخص صبح سویرے جائے اور لکڑیوں کا گٹھر اپنی پیٹھ پر رکھ کر لائے اور اس میں سے (یعنی اس کی قیمت میں سے) صدقہ کرے اور اس طرح لوگوں سے بے نیاز رہے (یعنی ان سے نہ مانگے) اس کے لیے اس بات سے بہتر ہے کہ وہ کسی سے مانگے، وہ اسے دے یا نہ دے ۱؎ کیونکہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے افضل ہے ۲؎، اور پہلے اسے دو جس کی تم خود کفالت کرتے ہو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- وہ بیان کی حدیث سے جسے انہوں نے قیس سے روایت کی ہے غریب جانی جاتی ہے، ۳- اس باب میں حکیم بن حزام، ابو سعید خدری، زبیر بن عوام، عطیہ سعدی، عبداللہ بن مسعود، مسعود بن عمرو، ابن عباس، ثوبان، زیاد بن حارث صدائی، انس، حبشی بن جنادہ، قبیصہ بن مخارق، سمرہ اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 599
´ضرورت کے بغیر مانگنا جائز نہیں ہے` «. . . 371- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”والذي نفسي بيده، ليأخذ أحدكم حبله فيحتطب على ظهره خير له من أن يأتي رجلا أعطاه الله من فضله فيسأله، أعطاه أو منعه.“ . . .» ”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر تم میں سے کوئی آدمی اپنی رسی لے، پھر لکڑیاں اکھٹی کر کے اپنی پیٹھ پر (رکھ کر) لے آئے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی ایسے آدمی کے پاس جا کر مانگے جسے اللہ نے اپنے فضل (مال) سے نواز رکھا ہو۔ وہ اسے دے یا دھتکار دے۔“ . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 599]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 1470، من حديث مالك به * وفي رواية يحييٰ بن يحييٰ: ”لَأَنْ يَأْخُذَ“]
تفقه: ➊ بہترین رزق وہی ہے جسے انسان اپنے ہاتھوں اور محنت سے کمائے۔ ➋ شرعی عذر کے بغیر لوگوں سے مانگنا جائز نہیں ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 371
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 680
´دوسروں سے مانگنے کی ممانعت کا بیان۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”تم میں سے کوئی شخص صبح سویرے جائے اور لکڑیوں کا گٹھر اپنی پیٹھ پر رکھ کر لائے اور اس میں سے (یعنی اس کی قیمت میں سے) صدقہ کرے اور اس طرح لوگوں سے بے نیاز رہے (یعنی ان سے نہ مانگے) اس کے لیے اس بات سے بہتر ہے کہ وہ کسی سے مانگے، وہ اسے دے یا نہ دے ۱؎ کیونکہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے افضل ہے ۲؎، اور پہلے اسے دو جس کی تم خود کفالت کرتے ہو۔“[سنن ترمذي/كتاب الزكاة/حدیث: 680]
اردو حاشہ: 1؎: عزیمت کی راہ یہی ہے کہ آدمی ضرورت و حاجت ہونے پر بھی کسی سے سوال نہ کر ے اگرچہ ضرورت و حاجت کے وقت سوال کرنا جائز ہے۔
2؎: اوپر والے ہاتھ سے مراد دینے والا ہاتھ ہے اور نیچے والے ہاتھ سے مراد لینے والا ہاتھ ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 680