صحيح البخاري
كِتَاب الْوَصَايَا -- کتاب: وصیتوں کے مسائل کا بیان
1. بَابُ الْوَصَايَا:
باب: اس بارے میں وصیتیں ضروری ہیں۔
حدیث نمبر: 2740
حَدَّثَنَا خَلَّادُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، هُوَ ابْنُ مِغْوَلٍ حَدَّثَنَا طَلْحَةُ بْنُ مُصَرِّفٍ، قَالَ: سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا" هَلْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْصَى؟ فَقَالَ: لَا، فَقُلْتُ: كَيْفَ كُتِبَ عَلَى النَّاسِ الْوَصِيَّةُ أَوْ أُمِرُوا بِالْوَصِيَّةِ؟ قَالَ: أَوْصَى بِكِتَابِ اللَّهِ".
ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے طلحہ بن مصرف نے بیان کیا ‘ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی وصیت کی تھی؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ اس پر میں نے پوچھا کہ پھر وصیت کس طرح لوگوں پر فرض ہوئی؟ یا (راوی نے اس طرح بیان کیا) کہ لوگوں کو وصیت کا حکم کیوں کر دیا گیا؟ انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو کتاب اللہ پر عمل کرنے کی وصیت کی تھی (اور کتاب اللہ میں وصیت کرنے کے لیے حکم موجود ہے)۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2696  
´کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی تھی؟`
طلحہ بن مصرف کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی چیز کی وصیت کی ہے؟ انہوں نے جواب دیا: نہیں، میں نے کہا: پھر کیوں کر مسلمانوں کو وصیت کا حکم دیا؟ تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی کتاب (قرآن) پر چلنے کی وصیت فرمائی ۱؎۔ مالک کہتے ہیں: طلحہ بن مصرف کا بیان ہے کہ ہزیل بن شرحبیل نے کہا: بھلا ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی پر حکومت کر سکتے تھے؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ کا تو یہ حال تھا کہ اگر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم پاتے تو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الوصايا/حدیث: 2696]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
سائل کا سوال خلافت کی وصیت کے بارے میں تھا۔
حضرت ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ نے واضح کردیا کہ رسو ل اللہ نے اس قسم کی کوئی وصیت نہیں فرمائی۔

(2)
سائل کا دوسرا سوال ایک اشکال کا اظہار ہے کہ رسول اللہﷺ نے عام مسلمانوں کو وصیت کا حکم دیا ہے تو خود بھی وصیت کی ہوگی، خصوصاً خلافت جیسے اہم معاملے میں ضرور فرمایا ہوگا کہ میرے بعد فلاں خلیفہ ہوگا تو جواب میں فرمایا گیا کہ رسول اللہﷺ نے پورے قرآن پر عمل کرنے کی وصیت فرمائی تھی۔
جس میں یہ حکم بھی ہے:
﴿وَاُولِی الْأَمْرِ مِنْکُمْ﴾  (النساء4؍59)
  تم (مسلمانوں)
میں سے جوصاحب امر ہوں ان کا حکم مانو۔

(2)
حضرت ابوبکر ؓ کی سیرت مبارکہ کا سب سے اہم پہلو اتباع رسول اللہﷺ ہے، اس لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ نبئ کریمﷺ حضرت علی ؓ کو خلیفہ متعین فرمائیں اور حضرت ابوبکر﷜ خود یہ منصب سنبھال لیں، بلکہ وہ تو رسول اللہﷺ کے مقرر کئے ہوئے خلیفے کے اطاعت میں آخری حد تک جانے کو تیار ہوجاتے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2696   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2119  
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے (کوئی مالی) وصیت نہیں کی۔`
طلحہ بن مصرف کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی الله عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی تھی؟ انہوں نے کہا: نہیں ۱؎ میں نے پوچھا: پھر وصیت کیسے لکھی گئی اور آپ نے لوگوں کو کس چیز کا حکم دیا؟ ابن ابی اوفی نے کہا: آپ نے کتاب اللہ پر عمل پیرا ہونے کی وصیت کی۔ [سنن ترمذي/كتاب الوصايا/حدیث: 2119]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ نے یہ سمجھا کہ یہ سوال کسی خاص وصیت کے تعلق سے ہے اسی لیے نفی میں جواب دیا،
اس سے مطلق وصیت کی نفی مقصود نہیں ہے،
بلکہ اس نفی کا تعلق مالی وصیت یا علی رضی اللہ عنہ سے متعلق کسی مخصوص وصیت سے ہے،
ورنہ آپ ﷺ نے وصیت کی جیسا کہ خود ابن ابی اوفیٰ نے بیان کیا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2119   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2740  
2740. حضرت طلحہ بن مصرف سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ ؓ سے دریافت کیا: آیا نبی کریم ﷺ نے کسی چیز کی وصیت کی تھی؟ انھوں نے فرمایا: نہیں۔ میں نے کہا: پھر لوگوں پر وصیت کرنا کیوں فرض کیا گیا ہے؟ یا لوگوں کو وصیت کرنے کا کیوں حکم دیا گیا ہے؟انھوں نے فرمایا: (ہاں،)آپ ﷺ نے کتاب اللہ پر عمل پیرا رہنے کی ضرور وصیت کی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2740]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت ابن ابی اوفیٰ ؓ کا مطلب یہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے مال کی وصیت نہیں کی کیونکہ آپ نے کوئی مال نہیں چھوڑا تھا۔
حضرت طلحہ بن مصرف نے اس حکم کو عام خیال کر کے دوبارہ سوال کیا کہ لوگوں پر وصیت کیوں فرض کی گئی ہے؟ تو انہوں نے وضاحت فرمائی کہ رسول اللہ ﷺ نے کتاب اللہ پر عمل کرنے کی وصیت کی تھی، چنانچہ ابن حبان کی روایت میں وضاحت ہے، حضرت ابن ابی ؓ سے سوال ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے کوئی وصیت فرمائی تھی؟ انہوں نے جواب دیا:
رسول اللہ ﷺ نے کوئی چیز قابل وصیت نہیں چھوڑی تھی۔
پھر سوال ہوا کہ جب آپ نے کوئی وصیت نہیں فرمائی تو لوگوں کو وصیت کرنے کا حکم کیوں دیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ نے کتاب اللہ کو مضبوطی سے پکڑنے کی وصیت فرمائی تھی۔
(صحیح ابن حبان: 382/13، و فتح الباري: 443/5)
الغرض مال یا خلافت کے متعلق وصیت کی نفی ہے اور کتاب اللہ کو مضبوطی سے پکڑنے کی وصیت کا اثبات ہے۔
(2)
جب تک لوگ اس وصیت پر عمل پیرا رہے دنیوی ترقی کی راہ پر گامزن رہے اور جب قرآن و حدیث کو چھوڑ دیا ذلت و رسوائی ان کا مقدر بن گئی، پھر مسلمان فرقوں میں بٹ کر مغلوب ہو گئے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2740