صحيح البخاري
كِتَاب الْوَصَايَا -- کتاب: وصیتوں کے مسائل کا بیان
6. بَابُ لاَ وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ:
باب: وارث کے لیے وصیت کرنا جائز نہیں ہے۔
حدیث نمبر: 2747
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ وَرْقَاءَ، عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" كَانَ الْمَالُ لِلْوَلَدِ، وَكَانَتِ الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ، فَنَسَخَ اللَّهُ مِنْ ذَلِكَ مَا أَحَبَّ، فَجَعَلَ لِلذَّكَرِ مِثْلَ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ، وَجَعَلَ لِلْأَبَوَيْنِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسَ، وَجَعَلَ لِلْمَرْأَةِ الثُّمُنَ وَالرُّبُعَ، وَلِلزَّوْجِ الشَّطْرَ وَالرُّبُعَ".
ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا ورقاء سے ‘ انہوں نے ابن ابی نجیح سے ‘ ان سے عطاء نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ شروع اسلام میں (میراث کا) مال اولاد کو ملتا تھا اور والدین کے لیے وصیت ضروری تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے جس طرح چاہا اس حکم کو منسوخ کر دیا پھر لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر قرار دیا اور والدین میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ اور بیوی کا (اولاد کی موجودگی میں) آٹھواں حصہ اور (اولاد کے نہ ہونے کی صورت میں) چوتھا حصہ قرار دیا۔ اسی طرح شوہر کا (اولاد نہ ہونے کی صورت میں) آدھا (اولاد ہونے کی صورت میں) چوتھائی حصہ قرار دیا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2747  
2747. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ابتدائے اسلام میں مال، اولاد کے لیے تھا اور والدین کے لیے وصیت تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس سے جو چاہا منسوخ کردیا اور مذکر کے لیے دو عورتوں کے برابر حصہ قرار دیا، ماں باپ میں سے ہر ایک کے لیے چھٹا چھٹا حصہ مقرر کردیا، نیز بیوی کو آٹھواں یاچوتھا اورشوہر کو نصف یا چوتھا حصہ دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2747]
حدیث حاشیہ:
اس صور ت میں وصیت کا کوئی سوال ہی باقی نہیں رہا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2747   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2747  
2747. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ابتدائے اسلام میں مال، اولاد کے لیے تھا اور والدین کے لیے وصیت تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس سے جو چاہا منسوخ کردیا اور مذکر کے لیے دو عورتوں کے برابر حصہ قرار دیا، ماں باپ میں سے ہر ایک کے لیے چھٹا چھٹا حصہ مقرر کردیا، نیز بیوی کو آٹھواں یاچوتھا اورشوہر کو نصف یا چوتھا حصہ دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2747]
حدیث حاشیہ:
(1)
قرآن کریم میں ہے:
﴿كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ ﴿١٨٠﴾ )
جب تم میں سے کسی کو موت آ پہنچے اور وہ کچھ مال و دولت چھوڑے جا رہا ہو تو مناسب طور پر والدین اور رشتے داروں کے حق میں وصیت کرنا تم پر فرض کر دیا گیا ہے۔
(البقرة: 180: 2)
اس کے بعد مذکورہ بالا حدیث یا آیت میراث کے ذریعے سے والدین کے لیے وصیت کو منسوخ کر دیا گیا اور والدین کے لیے باقاعدہ حصہ مقرر کر دیا گیا کہ اولاد ہونے کی صورت میں انہیں چھٹا چھٹا حصہ دیا جائے گا۔
گویا وراثت اور وصیت دونوں والدین کے لیے جمع نہیں ہو سکتے۔
اسی طرح وارث کے لیے وصیت اور وراثت دونوں جمع نہیں ہوں گے۔
جیسے والدین کے لیے وصیت کو منسوخ کر دیا اسی طرح وارث کے لیے بھی وصیت کو منسوخ کر دیا۔
(2)
اس بات پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ اگر کسی نے اپنے بھائی کے لیے وصیت کی جبکہ اس کا کوئی بیٹا نہ ہو جو بھائی کے لیے وراثت سے محرومی کا باعث ہے، پھر موصی کے مرنے سے پہلے پہلے اس کے ہاں بیٹا پیدا ہوا تو بھائی کے لیے وصیت جائز ہو گی کیونکہ اب وہ ترکے سے حصہ نہیں لے سکتا۔
بیٹے کی پیدائش سے پہلے اس کے لیے وصیت جائز نہیں تھی کیونکہ اس صورت میں وہ ترکے میں حق دار تھا۔
اسی طرح اگر کسی نے اپنے بھائی کے لیے وصیت کی جبکہ اس کا بیٹا بھی موجود تھا، پھر اتفاق سے موصی کی وفات سے پہلے پہلے اس کے بیٹے کا انتقال ہو گیا تو اس صورت میں بھائی کے لیے وصیت جائز نہیں ہو گی کیونکہ بیٹے کے فوت ہونے پر بھائی عصبہ ہونے کی حیثیت سے وارث بن گیا اور وارث کے لیے وصیت جائز نہیں۔
(فتح الباري: 457/5)
حضرت ابن عباس ؓ سے مروی حدیث میں ورثاء کے لیے حصوں کی وضاحت ہم آئندہ کتاب الفرائض میں کریں گے۔
بإذن اللہ تعالیٰ
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2747