سنن ترمذي
كتاب الحج عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: حج کے احکام و مناسک
11. باب مَا جَاءَ فِي الْجَمْعِ بَيْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ
باب: حج اور عمرہ کے ایک ساتھ کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 821
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَبَّيْكَ بِعُمْرَةٍ وَحَجَّةٍ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ، وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا، وَاخْتَارُوهُ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ وَغَيْرِهِمْ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو «لبيك بعمرة وحجة» فرماتے سنا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- انس کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عمر اور عمران بن حصین سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں، اہل کوفہ وغیرہ نے اسی کو اختیار کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 611) (صحیح) وقد أخرجہ کل من: صحیح البخاری/المغازی 61 (4354)، وصحیح مسلم/الحج 27 (1232)، من غیر ھذا الطریق۔»

وضاحت: ۱؎ اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج اور عمرے دونوں کا تلبیہ ایک ساتھ پکارا۔ انس رضی الله عنہ کا بیان اس بنیاد پر ہے کہ جب آپ کو حکم دیا گیا کہ حج میں عمرہ بھی شامل کر لیں تو آپ سے کہا گیا «قل عمرۃ فی حجۃ» اس بناء کے انس نے یہ روایت بیان کی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2968 - 2969)
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2917  
´احرام باندھنے اور (تلبیہ پکارنے) کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں مقام شجرہ (ذو الحلیفہ) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کے پاؤں کے پاس تھا، جب اونٹنی آپ کو لے کر سیدھی کھڑی ہو گئی تو آپ نے کہا: «لبيك بعمرة وحجة معا» میں عمرہ و حج دونوں کی ایک ساتھ نیت کرتے ہوئے حاضر ہوں، یہ حجۃ الوداع کا واقعہ ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2917]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
رسول اللہ ﷺ طہر کی نماز پڑھ کر مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے تھے۔
عصر کی نماز ذوالحليفه میں ادا کی پھر صبح تک یہیں قیام فرمایا۔ (سنن أابي داؤد، المناسك، باب وقت الاحرام، حديث: 1773)

(2)
رسول اللہﷺ نے کب لبیک پکارنا شروع کیا اس کے بارے میں صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے مختلف اقوال ہیں۔
اس موضوع پر بات کرتے ہوئےحضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا:
رسول اللہﷺ حج کے لیے روانہ ہوئے تو جب آپﷺ نے ذوالحليفه کی مسجد میں نماز پڑھی اسی مقام پر احرام کی نیت کرلی چنانچہ جب دو رکعتوں سے فارغ ہوئے تو حج کا تلبیہ پکارا۔
کچھ لوگوں نے آپ سے یہ لبیک سنا اور یاد رکھا (کہ نبی ﷺ نے مسجد میں لبیک کی ابتداء کی)
پھر آپ ﷺ سوار ہوئے چنانچہ جب اپ کی اونٹنی آپ کو لیکر کھڑی ہوئی، تو آپ نے لبیک پکارا۔
کچھ لوگوں نے آپ کو اسی وقت (لبیک پکارتے)
دیکھا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ جماعت در جماعت آتے تھے انھوں نے اونٹنی کے کھڑے ہونے پرنبیﷺ کو لبیک پکارتے سنا۔
تو (بعد میں)
کہا کہ رسول اللہﷺ نے تو اس وقت لبیک پکارنا شروع کیا تھا جب آپ کی اونٹنى آپﷺ کو لیکر کھڑی ہوئی پھر رسول اللہ ﷺ روانہ ہوگئے۔
آپﷺ بيداء کی بلند سطح پر چڑھے تو لبیک پکارا۔
کچھ لوگوں نے اس وقت آپ کو (لبیک پکارتے)
دیکھا تو انھوں نے (بعد میں روایت کرتے ہوئے)
کہا کہ نبیﷺ نے تو اسوقت لبیک پکارنا شروع کیا تھا جب آپﷺ بيداء کی بلند سطح پر پہنچے۔
قسم ہے اللہ کی! آپﷺ نے اپنی نماز کی جگہ (لبیک پکار کر)
نیت کرلی تھی پھر جب آپﷺ کی اونٹنی آپﷺ کو لیکے کھڑی ہوئی تو (پھر بلند آواز سے)
لبیک پکارا پھر جب بيداء کی بلند سطح پر پہنچے تب بھی (بلند آواز سے)
لبیک پکارا۔ (سنن أابي داؤد، المناسك، باب في وقت الاحرام، حديث: 1770)

(3)
رسول اللہ ﷺ کی نیت حج قران کی تھی اس لیے آپ نے حج و عمرہ دونوں کا نام لےکر تلبیہ شروع کیا۔
جن لوگوں کے ساتھ قربانی نہیں تھی انھیں رسول اللہ ﷺ نے عمرے کے بعد احرام کھولنے کا حکم دے دیا تھا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2917   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 821  
´حج اور عمرہ کے ایک ساتھ کرنے کا بیان۔`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو «لبيك بعمرة وحجة» فرماتے سنا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 821]
اردو حاشہ:
1؎:
اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے حج اور عمرے دونوں کا تلبیہ ایک ساتھ پکارا۔
انس رضی اللہ عنہ کا بیان اس بنیاد پر ہے کہ جب آپ کو حکم دیا گیا کہ حج میں عمرہ بھی شامل کر لیں تو آپ سے کہا گیا ((قُلْ عُمرَۃٌ فِی حَجَّۃِِ)) اس بناء کے انس نے یہ روایت بیان کی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 821   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1795  
´حج قران کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے انہیں کہتے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حج و عمرہ دونوں کا تلبیہ پڑھتے سنا آپ فرما رہے تھے: «لبيك عمرة وحجا لبيك عمرة وحجا» ۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1795]
1795. اردو حاشیہ: عبادات میں سے حج اور عمرہ ہی ایک ایسی عبادت ہے جس کی نیت پکار کر کہی جاتی ہے۔ باقی کسی عبادت میں لفظی نیت ثابت نہیں ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1795   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1805  
´حج قران کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں عمرے کو حج کے ساتھ ملا کر تمتع کیا تو آپ نے ہدی کے جانور تیار کئے، اور ذی الحلیفہ سے اپنے ساتھ لے کر گئے تو پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرے کا تلبیہ پکارا پھر حج کا (یعنی پہلے «لبيك بعمرة» کہا پھر «لبيك بحجة» کہا) ۱؎ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لوگوں نے بھی عمرے کو حج میں ملا کر تمتع کیا، تو لوگوں میں کچھ ایسے تھے جنہوں نے ہدی تیار کیا اور اسے لے گئے، اور بعض نے ہدی نہیں بھیجا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ پہنچے تو لوگوں سے فرمایا: تم میں سے جو ہدی لے کر آیا ہو تو اس کے لیے (احرام کی وجہ سے) حرام ہوئی چیزوں میں سے کوئی چیز حلال نہیں جب تک کہ وہ اپنا حج مکمل نہ کر لے، اور تم لوگوں میں سے جو ہدی لے کر نہ آیا ہو تو اسے چاہیئے کہ بیت اللہ کا طواف کرے، صفا و مروہ کی سعی کرے، بال کتروائے اور حلال ہو جائے، پھر حج کا احرام باندھے اور ہدی دے جسے ہدی نہ مل سکے تو ایام حج میں تین روزے رکھے اور سات روزے اس وقت جب اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ کر آ جائے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ آئے تو آپ نے طواف کیا، سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود کا استلام کیا، پھر پہلے تین پھیروں میں تیز چلے اور آخری چار پھیروں میں عام چال، بیت اللہ کے طواف سے فارغ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام ابراہیم پر دو رکعتیں پڑھیں، پھر سلام پھیرا اور پلٹے تو صفا پر آئے اور صفا و مروہ میں سات بار سعی کی، پھر (آپ کے لیے محرم ہونے کی وجہ سے) جو چیز حرام تھی وہ حلال نہ ہوئی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا حج پورا کر لیا اور یوم النحر (دسویں ذی الحجہ) کو اپنا ہدی نحر کر دیا، پھر لوٹے اور بیت اللہ کا طواف (افاضہ) کیا پھر ہر حرام چیز آپ کے لیے حلال ہو گئی اور لوگوں میں سے جنہوں نے ہدی دی اور اسے ساتھ لے کر آئے تو انہوں نے بھی اسی طرح کیا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1805]
1805. اردو حاشیہ:
➊ حج کے لیے قران (قاف کے کسرہ کے ساتھ) اور تمتع کی اصطلاحات شروع میں اس طرح مشہور و معروف نہ تھیں جس طرح کہ بعد میں ہوئیں۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ احادیث میں قران کے لیے تمتع کا لفظ بھی آیا ہے جیسے کہ مندرجہ ذیل بالاحدیث میں وارد ہوا ہے۔یہاں یہ لغوی معنی میں ہے۔یعنی فائدہ حاصل کرنا۔ چونکہ انہوں نے اپنے سفر حج میں عمرے کا فائدہ بھی حاصل کر لیا تھا اس لیے یہاں اسے لغوی طور پر تمتع سے تعبیر کر دیا ہے۔ ورنہ موجود اصطلاح کےاعتبار سے یہ حج تمتع نہیں ہے حج قران ہے۔
➋ مکہ پہنچ کر سب سے پہلا کام بیت اللہ کا طواف ہوتا ہے۔ اس طواف کو طواف قدوم کہتے ہیں۔
➌ طواف کی ابتدائی حجر اسود سے اور اس کے استلام سے ہوتی ہے اور اسی پر انتہا بھی۔ استلام کےمعنی ہیں ہاتھ لگانا یا چومنا ایک مکمل طواف میں سات چکر پورے کیے جاتے ہیں اور اس پہلے طواف (طواف قدوم)کے پہلے تین چکروں میں آہستہ آہستہ دو‎ڑنا مسنون ہے۔اسے «رمل» ‏‏‏‏ یا «خبب» کہتے ہیں۔مگر عورتیں اس سے مستثنی ہیں۔بعد والے کسی طواف میں رمل نہیں کیاجاتا۔
➍ طواف کے بعد دو رکعتیں پڑھنا مسنون ہے۔مستحب یہ ہے کہ مقام ابراہیم کے پاس پڑھی جائیں۔ان کے بعد دوبارہ حجر اسود کو بوسہ دینا یا ہاتھ لگانا بھی مسنون عمل ہے جو صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ خیال رہے کہ حجراسود کو بوسہ دینے کے لیے دھکم پیل ایک قبیح اور ناجائز حرکت ہے اور خواتین کے اندر گھسیں۔چاہیے کہ باوقار انداز سے اپنی باری کا انتظار کیا جائے یا پھر صرف ہاتھ لگا کر اشارہ کر کے آگے گزر جائے۔
➎ حج تمتع یا قران والے کے لیے قربانی واجب ہے۔اگر قربانی کی استطاعت نہ ہو تو دس روزے رکھے۔تین روزے ایام حج میں اور باقی سات اپنے اہل میں واپس آکر۔ایام حج سےمراد 9ذوالحجہ (یوم عرفات) سے پہلے یا پھر ایام تشریق ہیں۔ (تفسیر فتح القدیر) ب
➏ حج تمتع والا یا عمرے والا بیت اللہ کے طواف اور صفا مروہ کی سعی کے بعد حجامت بنوا کر کامل طور پر حلال ہو جاتا ہے جبکہ حج افراد یا قران والا دسویں ذوالحج کو قربانی کرنے اور حجامت بنوانے کے بعد لباس تبدیل کر سکتا ہے اور خوشبو لگا سکتا ہے۔مگر بیوی سے قربت نہیں کر سکتا۔ہاں بیت اللہ کے طواف (طواف افاضہ یا طواف زیارت)کے بعد وہ کامل طورپر حلال ہو جاتا ہے۔
➐ شیخ البانی  نے اس روایت کے الفاظ ابتدا میں رسول اللہ ﷺ نے عمرے کا تلبیہ کہا پھر حج کا کو شاذ قرار دیا ہے۔گویا صحیح بات یہ ہے کہ آپ نے پہلے حج کا تلبیہ کہا اور آ‎گے جاکر حج کے ساتھ عمرے کو بھی ملالیا۔ایسا ابتدا میں نہیں ہو ا بلکہ آگے جاکر ہوا۔ اس طرح دوسری روایات کے ساتھ مطابقت ہو جاتی ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے:زاد المعاد فتح الباری عون المعبود وغیرہ۔]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1805