صحيح البخاري
كِتَاب الْوَصَايَا -- کتاب: وصیتوں کے مسائل کا بیان
9. بَابُ تَأْوِيلِ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ} :
باب: اللہ تعالیٰ کے (سورۃ نساء میں) یہ فرمانے کی تفسیر کہ حصوں کی تقسیم وصیت اور دین کے بعد ہو گی۔
وَيُذْكَرُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى بِالدَّيْنِ قَبْلَ الْوَصِيَّةِ، وَقَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا سورة النساء آية 58فَأَدَاءُ الْأَمَانَةِ أَحَقُّ مِنْ تَطَوُّعِ الْوَصِيَّةِ، وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا صَدَقَةَ إِلَّا عَنْ ظَهْرِ غِنًى، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَا يُوصِي الْعَبْدُ إِلَّا بِإِذْنِ أَهْلِهِ، وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْعَبْدُ رَاعٍ فِي مَالِ سَيِّدِهِ".
اور منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض کو وصیت پر مقدم کرنے کا حکم دیا اور (اس سورت میں) اور اللہ کا فرمان «إن الله يأمركم أن تؤدوا الأمانات إلى أهلها‏» بے شک اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حق داروں کو ادا کرو۔ تو امانت (قرض) کا ادا کرنا نفل وصیت کے پورا کرنے سے زیادہ ضروری ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صدقہ وہی عمدہ ہے جس کے بعد آدمی مالدار رہے۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا غلام بغیر اپنے مالک کی اجازت کے وصیت نہیں کر سکتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا غلام اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہے۔
حدیث نمبر: 2750
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، وَعُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، أن حكيم بن حزام رضي الله عنه، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ قَالَ لِي:" يَا حَكِيمُ، إِنَّ هَذَا الْمَالَ خَضِرٌ حُلْوٌ، فَمَنْ أَخَذَهُ بِسَخَاوَةِ نَفْسٍ بُورِكَ لَهُ فِيهِ، وَمَنْ أَخَذَهُ بِإِشْرَافِ نَفْسٍ لَمْ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ، وَكَانَ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَعُ، وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى". قَالَ حَكِيمٌ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَا أَرْزَأُ أَحَدًا بَعْدَكَ شَيْئًا حَتَّى أُفَارِقَ الدُّنْيَا، فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يَدْعُو حَكِيمًا لِيُعْطِيَهُ الْعَطَاءَ، فَيَأْبَى أَنْ يَقْبَلَ مِنْهُ شَيْئًا، ثُمَّ إِنَّ عُمَرَ دَعَاهُ لِيُعْطِيَهُ، فَيَأْبَى أَنْ يَقْبَلَهُ، فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ، إِنِّي أَعْرِضُ عَلَيْهِ حَقَّهُ الَّذِي قَسَمَ اللَّهُ لَهُ مِنْ هَذَا الْفَيْءِ، فَيَأْبَى أَنْ يَأْخُذَهُ، فَلَمْ يَرْزَأْ حَكِيمٌ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى تُوُفِّيَ رَحِمَهُ اللَّهُ.
ہم سے محمد بن یوسف بیکندی نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو امام اوزاعی نے خبر دی ‘ انہوں نے زہری سے ‘ انہوں نے سعید بن مسیب اور عروہ بن زبیر سے کہ حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ (مشہور صحابی) نے بیان کیا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگا آپ نے مجھ کو دیا ‘ پھر مانگا پھر آپ نے دیا ‘ پھر فرمانے لگے حکیم یہ دنیا کا روپیہ پیسہ دیکھنے میں خوشنما اور مزے میں شیریں ہے لیکن جو کوئی اس کو سیر چشمی سے لے اس کو برکت ہوتی ہے اور جو کوئی جان لڑا کر حرص کے ساتھ اس کو لے اس کو برکت نہ ہو گی۔ اس کی مثال ایسی ہے جو کماتا ہے لیکن سیر نہیں ہوتا اوپر والا (دینے والا) ہاتھ نیچے والے (لینے والے) ہاتھ سے بہتر ہے۔ حکیم نے عرض کیا یا رسول اللہ! قسم اس کی جس نے آپ کو سچا پیغمبر کر کے بھیجا ہے میں تو آج سے آپ کے بعد کسی سے کوئی چیز کبھی نہیں لوں گا مرنے تک پھر (حکیم کا یہ حال رہا) کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کا سالانہ وظیفہ دینے کے لیے ان کو بلاتے ‘ وہ اس کے لینے سے انکار کرتے۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی خلافت میں ان کو بلایا ان کا وظیفہ دینے کے لیے لیکن انہوں نے انکار کیا۔ عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے مسلمانو! تم گواہ رہنا حکیم کو اس کا حق جو لوٹ کے مال میں اللہ نے رکھا ہے دیتا ہوں وہ نہیں لیتا۔ غرض حکیم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پھر کسی شخص سے کوئی چیز قبول نہیں کی (اپنا وظیفہ بھی بیت المال میں نہ لیا) یہاں تک کہ ان کی وفات ہو گئی۔ اللہ ان پر رحم کرے۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2750  
2750. حضرت حکیم بن حزام ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے کچھ مانگا تو آپ نے مجھے دے دیا۔ میں نے پھر مانگا تو آپ نے پھر عطا فرمادیا۔ آخر کار آپ نے فرمایا: اے حکیم! دنیا کایہ مال (دیکھنے میں) خوشن اور (ذائقے میں) شیری ہے لیکن جو اس کو دل کی سخاوت اور سیر چشمی سے لے تو اسکے لیے اس میں برکت ہوگی اور جو کوئی اسے طمع اور لالچ سے لے، اس کے لیے اس میں برکت نہیں ہوگی۔ یہ اس شخص کی طرح ہے جو اسے کھاتا ہے لیکن سیر نہیں ہوتا۔ اور اوپر والا (دینے والا) ہاتھ نیچے والے (لینے والے) ہاتھ سے بہتر ہے۔ حضرت حکیم ؓ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے!میں آپ کے بعد کسی سے کچھ نہیں لوں گا حتیٰ کہ دنیا سے رخصت ہوجاؤں۔ اس کے بعد حضرت ابوبکرصدیق ؓ حضرت حکیم ؓ کو وظیفہ دینے کے لیے بلاتے تو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2750]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ نے حضرت حکیم بن حزام ؓ کو عطیہ قبول کرنے میں عدم رغبت کی طرف توجہ دلائی اور عطیہ لینے والے کے ہاتھ کو نچلا ہاتھ بتایا۔
وصیت بھی صدقے کی طرح ہے، اس لیے اسے قبول کرنے والے کا ہاتھ ید سفلی ہو گا جبکہ قرض کا معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔
اس میں وصول کرنے والے کا ہاتھ نچلا نہیں ہوتا کیونکہ وہ اپنی دی ہوئی رقم وصول کر رہا ہے، اس لیے اسے وصول کرنے کے لیے زبردستی کی جا سکتی ہے۔
اس اعتبار سے قرض، عطیے اور صدقے سے قوی ہے، لہذا اسے مقدم کرنا چاہیے۔
(2)
حضرت عمر ؓ نے ان کی حق دہی کے متعلق بہت کوشش کی اور قرض کی طرح انہیں اس کا حق دار قرار دیا۔
یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ جب قرض متعین ہو تو نفلی صدقہ کرنے سے پہلے اس کی ادائیگی ضروری ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2750