صحيح البخاري
كِتَاب الْوَصَايَا -- کتاب: وصیتوں کے مسائل کا بیان
11. بَابُ هَلْ يَدْخُلُ النِّسَاءُ وَالْوَلَدُ فِي الأَقَارِبِ:
باب: کیا عزیزوں میں عورتیں اور بچے بھی داخل ہوں گے۔
حدیث نمبر: 2753
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، وَأَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ سورة الشعراء آية 214، قَالَ: يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا، اشْتَرُوا أَنْفُسَكُمْ، لَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ، لَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، يَا عَبَّاسُ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، لَا أُغْنِي عَنْكَ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، وَيَا صَفِيَّةُ عَمَّةَ رَسُولِ اللَّهِ، لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، وَيَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَلِينِي مَا شِئْتِ مِنْ مَالِي، لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا". تَابَعَهُ أَصْبَغُ، عَنْ ابْنِ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ.
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو شعیب نے خبر دی ‘ انہوں نے زہری سے ‘ کہا مجھ کو سعید بن مسیب اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا جب (سورۃ الشعراء کی) یہ آیت اللہ تعالیٰ نے اتاری «وأنذر عشيرتك الأقربين‏» اور اپنے نزدیک ناطے والوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قریش کے لوگو! یا ایسا ہی کوئی اور کلمہ تم لوگ اپنی اپنی جانوں کو (نیک اعمال کے بدل) مول لے لو (بچا لو) میں اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا (یعنی اس کی مرضی کے خلاف میں کچھ نہیں کر سکوں گا) عبد مناف کے بیٹو! میں اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا۔ عباس عبدالمطلب کے بیٹے! میں اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا۔ صفیہ میری پھوپھی! اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا۔ فاطمہ! بیٹی تو چاہے میرا مال مانگ لے لیکن اللہ کے سامنے تیرے کچھ کام نہیں آؤں گا۔ ابوالیمان کے ساتھ حدیث کو اصبغ نے بھی عبداللہ بن وہب سے ‘ انہوں نے یونس سے ‘ انہوں نے ابن شہاب سے روایت کیا۔
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2753  
´روز قیامت اپنی نیکی ہی ہر انسان کے کام آئے گی `
«. . . أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ سورة الشعراء آية 214، قَالَ: يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا، اشْتَرُوا أَنْفُسَكُمْ، لَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ، لَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، يَا عَبَّاسُ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، لَا أُغْنِي عَنْكَ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، وَيَا صَفِيَّةُ عَمَّةَ رَسُولِ اللَّهِ، لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، وَيَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَلِينِي مَا شِئْتِ مِنْ مَالِي، لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا . . .»
. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا جب (سورۃ الشعراء کی) یہ آیت اللہ تعالیٰ نے اتاری «وأنذر عشيرتك الأقربين‏» اور اپنے نزدیک ناطے والوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قریش کے لوگو! یا ایسا ہی کوئی اور کلمہ تم لوگ اپنی اپنی جانوں کو (نیک اعمال کے بدل) مول لے لو (بچا لو) میں اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا (یعنی اس کی مرضی کے خلاف میں کچھ نہیں کر سکوں گا) عبد مناف کے بیٹو! میں اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا۔ عباس عبدالمطلب کے بیٹے! میں اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا۔ صفیہ میری پھوپھی! اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا۔ فاطمہ! بیٹی تو چاہے میرا مال مانگ لے لیکن اللہ کے سامنے تیرے کچھ کام نہیں آؤں گا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوَصَايَا/بَابُ هَلْ يَدْخُلُ النِّسَاءُ وَالْوَلَدُ فِي الأَقَارِبِ: 2753]

تخريج الحديث:
[123۔ البخاري فى: 55 كتاب الوصايا: 11 باب هل يدخل النساء والولد فى الأقارب 2705 مسلم 206]
فھم الحدیث:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اپنی نیکی ہی ہر انسان کے کام آئے گی، روز قیامت کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا حتی کہ خود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے مشرک رشتہ داروں کو نہیں بچا سکیں گے۔ قرآن میں ہے کہ «وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ» [الانعام: 164] (روز قیامت) کوئی بوجھ اٹھانے والی کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔ لہٰذا کسی پیر، فقیر، بزرگ، درویش، ولی اور امام پر تکیہ کر کے بلا جھجک گناہوں میں مصروف رہنا دانشمندی نہیں۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 123   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3185  
´سورۃ الشعراء سے بعض آیات کی تفسیر۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت «وأنذر عشيرتك الأقربين» اے نبی! اپنے قرابت داروں کو ڈرایئے نازل ہوئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص و عام سبھی قریش کو اکٹھا کیا ۱؎، آپ نے انہیں مخاطب کر کے کہا: اے قریش کے لوگو! اپنی جانوں کو آگ سے بچا لو، اس لیے کہ میں تمہیں اللہ کے مقابل میں کوئی نقصان یا کوئی نفع پہنچانے کی طاقت نہیں رکھتا۔ اے بنی عبد مناف کے لوگو! اپنے آپ کو جہنم سے بچا لو، کیونکہ میں تمہیں اللہ کے مقابل میں کسی طرح کا نقصان یا نفع پہنچانے کا اختیار نہیں رکھتا، اے بنی قصی کے لوگو! اپنی جانوں کو آگ سے بچا لو۔ کیونکہ م۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3185]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ دوسری عام مجلس ہو گی،
اور پہلی مجلس خاص اہل خاندان کے ساتھ ہوئی ہو گی؟۔
2؎:
یعنی اس کا حق (اس دنیا میں) ادا کروں گا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3185   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2753  
2753. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی کہاپنے قریبی رشتہ داروں کوڈرائیں۔ تو رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور فرمایا: اے جمیعت قریش!۔۔۔ یا اس جیسا کوئی اور لفظ استعمال فرمایا۔۔۔ تم خود کو اپنے اعمال کے عوض خریدلو، میں اللہ کے حضور تمہارے کچھ کام نہیں آسکوں گا۔ اے بنو عبد مناف!میں اللہ کی طرف سے تمہارا دفاع نہیں کرسکوں گا اے عباس بن عبدالمطلب!میں اللہ کے عذاب سے تمھیں نہیں بچا سکوں گا۔ اے صفیہ!جو رسول اللہ ﷺ کی پھوپھی ہیں، میں اللہ کی طرف سے کسی چیز کو تم سے دور نہیں کرسکوں گا۔ اے فاطمہ بنت محمد ﷺ! جو کچھ میرے اختیار میں مال وغیرہ ہے تم اس کا سوال مجھ سے کرسکتی ہو، البتہ اللہ کی طرف سے تمہارا دفاع نہیں کرسکوں گا۔ اصبغ نے زہری سے روایت کرنے میں ابن وہب کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2753]
حدیث حاشیہ:
پچھلی حدیث میں پہلے آپ نے قریش کے کل لوگوں کو مخاطب کیا جو خاص آپ کی قوم کے لوگ تھے۔
پھر عبد مناف اپنے چوتھے داداکی اولاد کو۔
پھر خاص اپنے چچا اور پھوپھی یعنی دادا کی اولاد کو پھر خاص اپنی اولاد کو۔
اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے یہ نکالا کہ قرابت والوں میں عورتیں داخل ہیں۔
کیونکہ حضرت صفیہ ؓ اپنی پھوپھی کو بھی آپ نے مخاطب کیا اور بچے بھی اس لئے کہ حضرت فاطمہ ؓ جب یہ آیت اتری کم سن بچی تھیں‘ آپ نے ان کو بھی مخاطب فرمایا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2753   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2753  
2753. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی کہاپنے قریبی رشتہ داروں کوڈرائیں۔ تو رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور فرمایا: اے جمیعت قریش!۔۔۔ یا اس جیسا کوئی اور لفظ استعمال فرمایا۔۔۔ تم خود کو اپنے اعمال کے عوض خریدلو، میں اللہ کے حضور تمہارے کچھ کام نہیں آسکوں گا۔ اے بنو عبد مناف!میں اللہ کی طرف سے تمہارا دفاع نہیں کرسکوں گا اے عباس بن عبدالمطلب!میں اللہ کے عذاب سے تمھیں نہیں بچا سکوں گا۔ اے صفیہ!جو رسول اللہ ﷺ کی پھوپھی ہیں، میں اللہ کی طرف سے کسی چیز کو تم سے دور نہیں کرسکوں گا۔ اے فاطمہ بنت محمد ﷺ! جو کچھ میرے اختیار میں مال وغیرہ ہے تم اس کا سوال مجھ سے کرسکتی ہو، البتہ اللہ کی طرف سے تمہارا دفاع نہیں کرسکوں گا۔ اصبغ نے زہری سے روایت کرنے میں ابن وہب کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2753]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ نے پہلے قریش کے تمام لوگوں کو مخاطب کیا جو خاص طور پر آپ کی قوم کے لوگ تھے، پھر عبد مناف اپنے چوتھے دادا کی اولاد کو آواز دی، اس کے بعد خاص اپنے چچا اور پھوپھی، یعنی دادا کی اولاد کو پکارا، پھر اپنی خاص اولاد کو دعوت فکر دی۔
(2)
اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے ثابت کیا کہ قرابت داروں میں عورتیں اور بچے شامل ہوتے ہیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی پھوپھی حضرت صفیہ ؓ اور اپنی لخت جگر حضرت فاطمہ ؓ کو شامل فرمایا۔
لیکن وصیت میں صرف وہ رشتے دار شامل ہوں گے جو اس کے ترکے میں شرعی وارث نہ ہوں۔
(3)
واضح رہے کہ اگر کسی نے قرابت داروں کے لیے وصیت کی ہو تو امام ابو حنیفہ ؓ کے نزدیک ہر وہ قرابت دار مراد ہو گا جو رحم کے ناتے سے ہو، بشرطیکہ وہ محرم ہو، خواہ باپ کی طرف سے ہو یا ماں کی طرف سے لیکن ابتدا باپ کی طرف سے ہو گی، مثلا:
اگر چچا اور ماموں ہے تو وصیت چچا کے لیے ہو گی۔
اگر وہ نہ ہو تو ماموں حق دار ہو گا، البتہ ان کی اولاد کو وصیت شامل نہیں ہو گی کیونکہ ان کی اولاد سے رحم کا رشتہ تو ہے لیکن وہ محرم نہیں ہیں۔
امام شافعی ؒ فرماتے ہیں:
ہر ذی رحم پر قرابت کا اطلاق ہو گا، خواہ وہ محرم ہو یا غیر محرم۔
ان کے نزدیک چچا، پھوپھی اور ماموں کی اولاد بھی قرابت میں شامل ہو گی۔
امام طحاوی ؒ نے قرابت کے متعلق پانچ اقوال اور ان کے دلائل ذکر کرنے کے بعد امام ابو حنیفہ ؒ کے موقف کو باطل قرار دے کر امام شافعی ؒ کے موقف کو اختیار کیا ہے۔
(شرح معاني الآثار: 425/2)
امام طحاوی ؒ کے اس جراءت مندانہ کردار کی علامہ عینی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ایک مجتہد امام جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ سے احکام کو استنباط کرتا ہے اس کا یہی انداز ہونا چاہیے، یہی وجہ ہے کہ امام طحاوی ؒنے اس مسئلے میں امام ابو حنیفہ اور صاحبین (امام ابو یوسف اور امام محمد)
کے قول کو ترک کر دیا ہے۔
(عمدة القاري: 33/10)
آخر میں امام بخاری ؒ کی ذکر کردہ متابعت کو امام ذہلی نے زہریات میں متصل سند سے بیان کیا ہے، نیز امام مسلم ؒ نے بھی ابن وہب کے حوالے سے روایت کیا ہے۔
(صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 504(206)
، و فتح الباري: 468/5)

   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2753