سنن ترمذي
كتاب الحج عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: حج کے احکام و مناسک
59. باب مَا جَاءَ فِي رَمْىِ يَوْمِ النَّحْرِ ضُحًى
باب: قربانی کے دن چاشت کے وقت رمی کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 894
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْمِي يَوْمَ النَّحْرِ ضُحًى، وَأَمَّا بَعْدَ ذَلِكَ فَبَعْدَ زَوَالِ الشَّمْسِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ، أَنَّهُ لَا يَرْمِي بَعْدَ يَوْمِ النَّحْرِ إِلَّا بَعْدَ الزَّوَالِ.
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دسویں ذی الحجہ کو (ٹھنڈی) چاشت کے وقت رمی کرتے تھے اور اس کے بعد زوال کے بعد کرتے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اکثر اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے کہ وہ دسویں ذی الحجہ کے زوال بعد کے بعد ہی رمی کرے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحج 53 (1299)، سنن ابی داود/ الحج 78 (1971)، سنن النسائی/الحج 221 (3065)، سنن ابن ماجہ/المناسک 75 (3053)، سنن ابی داود/ المناسک 58 (1937) (تحفة الأشراف: 2795) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ سنت یہی ہے کہ یوم النحر (دسویں ذوالحجہ، قربانی والے دن) کے علاوہ دوسرے، گیارہ اور بارہ والے دنوں میں رمی سورج ڈھلنے کے بعد کی جائے، یہی جمہور کا قول ہے اور عطاء و طاؤس نے اسے زوال سے پہلے مطلقاً جائز کہا ہے، اور حنفیہ نے کوچ کے دن زوال سے پہلے رمی کی رخصت دی ہے، عطاء و طاؤس کے قول پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل و قول سے کوئی دلیل نہیں ہے، البتہ حنفیہ نے اپنے قول پر ابن عباس کے ایک اثر سے استدلال کیا ہے، لیکن وہ اثر ضعیف ہے اس لیے جمہو رہی کا قول قابل اعتماد ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3053)
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 628  
´حج کا طریقہ اور دخول مکہ کا بیان`
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرہ کو قربانی کے روز چاشت کے وقت کنکریاں ماریں اور اس روز کے بعد آفتاب ڈھلنے کے بعد۔ (مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 628]
628 فوائد و مسائل:
➊ پہلے روز زوال آفتاب سے پہلے کنکریاں مارنی چاہییں اور باقی ایام میں زوال آفتاب کے بعد۔
➋ اگر دس تاریخ کو زوال آفتاب سے پہلے کنکریاں نہ مار سکے تو پھر اسی روز زوال آفتاب کے بعد مارنی چاہییں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 628   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 894  
´قربانی کے دن چاشت کے وقت رمی کرنے کا بیان۔`
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دسویں ذی الحجہ کو (ٹھنڈی) چاشت کے وقت رمی کرتے تھے اور اس کے بعد زوال کے بعد کرتے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 894]
اردو حاشہ:
1؎:
اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ سنت یہی ہے کہ یوم النحر (دسویں ذوالحجہ،
قربانی والے دن)
کے علاوہ دوسرے،
گیارہ اور بارہ والے دنوں میں رمی سورج ڈھلنے کے بعد کی جائے،
یہی جمہور کا قول ہے اور عطاء و طاوس نے اسے زوال سے پہلے مطلقاً جائز کہا ہے،
اور حنفیہ نے کوچ کے دن زوال سے پہلے رمی کی رخصت دی ہے،
عطاء و طاؤس کے قول پر نبی اکرم ﷺ کے فعل و قول سے کوئی دلیل نہیں ہے،
البتہ حنفیہ نے اپنے قول پر ابن عباس کے ایک اثر سے استدلال کیا ہے،
لیکن وہ اثر ضعیف ہے اس لیے جمہور ہی کا قول قابل اعتماد ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 894