صحيح البخاري
كِتَاب الْوَصَايَا -- کتاب: وصیتوں کے مسائل کا بیان
19. بَابُ مَا يُسْتَحَبُّ لِمَنْ يُتَوَفَّى فَجْأَةً أَنْ يَتَصَدَّقُوا عَنْهُ، وَقَضَاءِ النُّذُورِ عَنِ الْمَيِّتِ:
باب: اگر کسی کو اچانک موت آ جائے تو اس کی طرف سے خیرات کرنا مستحب ہے اور میت کی نذروں کو پوری کرنا۔
حدیث نمبر: 2760
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ رَجُلًا، قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ أُمِّي افْتُلِتَتْ نَفْسُهَا وَأُرَاهَا، لَوْ تَكَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ، أَفَأَتَصَدَّقُ عَنْهَا؟ قَالَ: نَعَمْ تَصَدَّقْ عَنْهَا".
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا ‘ ان سے ہشام نے ‘ ان سے ان کے باپ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ ایک صحابی (سعد بن عبادہ) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میری والدہ کی موت اچانک واقع ہو گئی ‘ میرا خیال ہے کہ اگر انہیں گفتگو کا موقع ملتا تو وہ صدقہ کرتیں تو کیا میں ان کی طرف سے خیرات کر سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ان کی طرف سے خیرات کر۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 227  
´عذاب قبر حق ہے`
«. . . 471- وبه: أن رجلا قال للنبي صلى الله عليه وسلم: إن أمي افتلتت نفسها وأراها لو تكلمت تصدقت، أفأتصدق عنها؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: نعم، فتصدق عنها. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے) روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: میری ماں اچانک فوت ہو گئی ہیں اور میرا خیال ہے کہ اگر انہیں بات کرنے کا موقع ملتا تو صدقہ کرتیں، کیا میں ان کی طرف سے صدقہ کر سکتا ہوں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! تو انہوں نے والدہ کی طرف سے صدقہ کر دیا۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 227]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 2760، من حديث مالك، ومسلم 51/1004 بعد ح1630، من حديث هشام بن عروة به وصححه ابن خزيمه 2500، وابن حبان الموارد: 857]

تفقه:
➊ میت کی طرف سے صدقہ کرنا جائز ہے۔
➋ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «وهو ينتفع بكل ما يصل إليه من كل مسلم۔ سواءً كان من أقاربه أو غيرهم كما ينتفع بصلاة المصلين عليه ودعائهم له عند قبره۔» اور اسے (میت کو) مسلمان کی طرف سے پہنچنے والی ہر چیز سے نفع پہنچتا ہے، رشتہ دار اور غیر رشتہ دار کی تفریق کے بغیر جیسا کہ جنازہ پڑھنے والوں اور قبر کے پاس دعا کرنے والوں کی وجہ سے اسے نفع پہنچتا ہے۔ [مجموع فتاويٰ ابن تيميه ج24 ص367]
معلوم ہوا کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ صرف قریبی رشتہ داروں یا اولاد کی طرف سے صدقے کا ثواب پہنچتا ہے، ان کا یہ قول صحیح نہیں ہے۔
➌ سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بعض جہادی سفروں میں گئے تو مدینے میں ان کی والدہ فوت ہوگئیں۔ اس سے کہا گیا: وصیت کرجاؤ۔ اس نے کہا: کس کی وصیت کروں؟ مال تو سعد کا ہے۔ وہ سعد رضی اللہ عنہ کے آنے سے پہلے فوت ہو گئیں جب وہ تشریف لائے تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اگر میں اس (والدہ) کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا اسے فائدہ ہوگا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔ سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: فلاں فلاں باغ اس کی طرف سے صدقہ ہے۔ [الموطأ 2/760 ح1527، وهو صحيح، سنن النسائي: 3617 وصححه ابن خزيمه: 2500، وابن حبان، الموارد: 857]
➍ والدین کے ایسی خواہشات کی بھی تکمیل کرنی چاہئے جو وہ زبان پر نہ لاسکے ہوں۔
➎ صدقات کے نام پر عوام میں بہت سی بدعات کا رواج بھی ہوگیا ہے، مثلاً شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کے نام کی گیارہویں وغیرہ، ان بدعات سے بچنا چاہئے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 471   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2717  
´کوئی شخص وصیت کیے بغیر مر جائے تو کیا اس کی طرف سے صدقہ دیا جائے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا، اور اس نے عرض کیا: میری ماں کا اچانک انتقال ہو گیا، اور وہ وصیت نہیں کر سکیں، میرا خیال ہے کہ اگر وہ بات چیت کر پاتیں تو صدقہ ضرور کرتیں، تو کیا اگر میں ان کی جانب سے صدقہ کروں تو انہیں اور مجھے اس کا ثواب ملے گا یا نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں (ملے گا)۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الوصايا/حدیث: 2717]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
انسان کو مرنے کے بعد جس طرح ان اعمال کا ثواب پہنچتا رہتا ہے جو اس نے زندگی میں کیے تھے اور ان کےنیک اثرات بعد میں جاری رہے، اسی طرح اس صدقے وغیرہ کا ثواب بھی پہنچتا ہے جو والدین کی وفات کے بعد اولاد ان کی طرف سے کرے۔

(2)
فوت شدہ والدین کی طرف سے صدقے کےلیے یہ شرط نہیں کہ انہوں نے وصیت کی ہو۔

(3)
آج کل ایصال ثواب کے نام سے جو محفلیں برپا کی جاتی ہیں اور کھانے کھلائے جاتے ہیں ان کی حیثیت محض ایک رسم کی ہے۔
صحیح طریقہ یہ ہے کہ خاموشی سے کسی مستحق کی مناسب امداد کردی جائے۔

(4)
قرض اور دوسرے مالی حقوق کی ادائیگی میں جس طرح زندگی میں نیابت ممکن ہے، اسی طرح وفات کے بعد بھی کسی کا قرض دوسرا آدمی ادا کردے تو فوت شدہ شخص برئ الذمہ ہو جاتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2717   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 820  
´وصیتوں کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ! میری والدہ اچانک وفات پا گئی ہیں اور انہوں نے کوئی وصیت نہیں کی۔ میرا اس کے بارے میں خیال ہے کہ اگر وہ کوئی گفتگو کرتیں تو صدقہ (ضرور) کرتیں۔ کیا انہیں ثواب ملے گا اگر میں ان کی جانب سے صدقہ کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں (بخاری و مسلم) یہ الفاظ مسلم کے ہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 820»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الوصايا، باب ما يستحب لمن توفي فجأة أن يتصدقوا عنه.....، حديث:2760، ومسلم، الزكاة، باب وصول ثواب الصدقة عن الميت إليه، حديث:1004.»
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اولاد کی جانب سے صدقے کا ثواب والدین کو پہنچتا ہے اور بغیر وصیت کے صدقہ کرنا بھی جائز ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 820   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2760  
2760. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا: میری والدہ اچانک وفات پا گئی ہے، میرے خیال کے مطابق اگر اسے گفتگو کا موقع ملتا تو وہ ضرور صدقہ کرتی۔ کیا اب میں اس کی طرف سے صدقہ کرسکتا ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں تم اس کی طرف سے صدقہ کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2760]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ورثاءکی طرف سے میت کو خیرات اورصدقے کا ثواب پہنچتا ہے۔
اہلحدیث کا اس پر اتفاق ہے لیکن معتزلہ نے اس کا انکار کیا ہے۔
دوسری روایت میں ہے سعد ؓنے پوچھا کونسی خیرات افضل ہے‘ آپ ﷺ نے فرمایا پانی پلانا۔
اس کوامام نسائی ؒنے روایت کیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2760   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2760  
2760. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا: میری والدہ اچانک وفات پا گئی ہے، میرے خیال کے مطابق اگر اسے گفتگو کا موقع ملتا تو وہ ضرور صدقہ کرتی۔ کیا اب میں اس کی طرف سے صدقہ کرسکتا ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں تم اس کی طرف سے صدقہ کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2760]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس عنوان کے دو جز ہیں، پہلا یہ ہے کہ میت کی طرف سے صدقہ و خیرات کیا جائے کیونکہ صدقہ میت کو نفع دیتا ہے۔
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ جب ابن آدم فوت ہو جائے تو اس کے تمام اعمال ختم ہو جاتے ہیں مگر تین اعمال کا ثواب بدستور جاری رہتا ہے۔
ان میں ایک صدقہ جاریہ ہے۔
(صحیح مسلم، الوصیة، حدیث: 4223(1631) (2)
سنن نسائی کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت سعد ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا:
میری والدہ کے لیے کون سا صدقہ بہتر ہو گا؟ تو آپ نے فرمایا:
پانی پلانا بہتر صدقہ ہے۔
(سنن النسائي، الوصایا، حدیث: 3694)
روایات میں اس امر کی وضاحت ہے کہ حضرت سعد ؓ نے اپنی والدہ کے لیے ایک کنواں وقف کیا تھا جس کا نام بئر ام سعد تھا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2760