صحيح البخاري
كِتَاب الْوَصَايَا -- کتاب: وصیتوں کے مسائل کا بیان
21. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَآتُوا الْيَتَامَى أَمْوَالَهُمْ وَلاَ تَتَبَدَّلُوا الْخَبِيثَ بِالطَّيِّبِ وَلاَ تَأْكُلُوا أَمْوَالَهُمْ إِلَى أَمْوَالِكُمْ إِنَّهُ كَانَ حُوبًا كَبِيرًا وَإِنْ خِفْتُمْ أَنْ لاَ تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ} :
باب: اللہ تعالیٰ کا ارشاد (سورۃ نساء میں) کہ ”اور یتیموں کو ان کا مال پہنچا دو اور ستھرے مال کے عوض گندہ مال مت لو۔ اور ان کا مال اپنے مال کے ساتھ گڈ مڈ کر کے نہ کھاؤ بیشک یہ بہت بڑا گناہ ہے اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم یتیم لڑکیوں میں انصاف نہ کر سکو گے تو دوسری عورتیں جو تمہیں پسند ہوں، ان سے نکاح کر لو“۔
حدیث نمبر: 2763
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: كَانَ عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ يُحَدِّثُ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ سورة النساء آية 3، قَالَتْ: هِيَ الْيَتِيمَةُ فِي حَجْرِ وَلِيِّهَا فَيَرْغَبُ فِي جَمَالِهَا، وَمَالِهَا، وَيُرِيدُ أَنْ يَتَزَوَّجَهَا بِأَدْنَى مِنْ سُنَّةِ نِسَائِهَا، فَنُهُوا عَنْ نِكَاحِهِنَّ إِلَّا أَنْ يُقْسِطُوا لَهُنَّ فِي إِكْمَالِ الصَّدَاقِ، وَأُمِرُوا بِنِكَاحِ مَنْ سِوَاهُنَّ مِنَ النِّسَاءِ، قَالَتْ عَائِشَةُ: ثُمَّ اسْتَفْتَى النَّاسُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّسَاءِ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ سورة النساء آية 127، قَالَتْ: فَبَيَّنَ اللَّهُ فِي هَذِهِ أَنَّ الْيَتِيمَةَ إِذَا كَانَتْ ذَاتَ جَمَالٍ وَمَالٍ رَغِبُوا فِي نِكَاحِهَا وَلَمْ يُلْحِقُوهَا بِسُنَّتِهَا بِإِكْمَالِ الصَّدَاقِ، فَإِذَا كَانَتْ مَرْغُوبَةً عَنْهَا فِي قِلَّةِ الْمَالِ وَالْجَمَالِ تَرَكُوهَا وَالْتَمَسُوا غَيْرَهَا مِنَ النِّسَاءِ، قَالَ: فَكَمَا يَتْرُكُونَهَا حِينَ يَرْغَبُونَ عَنْهَا، فَلَيْسَ لَهُمْ أَنْ يَنْكِحُوهَا إِذَا رَغِبُوا فِيهَا إِلَّا أَنْ يُقْسِطُوا لَهَا الْأَوْفَى مِنَ الصَّدَاقِ وَيُعْطُوهَا حَقَّهَا".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو شعیب نے خبر دی زہری سے کہ عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ان سے حدیث بیان کرتے تھے انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے آیت «وإن خفتم أن لا تقسطوا في اليتامى فانكحوا ما طاب لكم من النساء‏» اور اگر تم ڈرو کہ یتیموں کے حق میں انصاف نہیں کرو گے تو (اور) عورتوں میں سے جو تمہیں پسند ہوں ان سے نکاح کرلو۔ کا مطلب پوچھا تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ اس سے مراد وہ یتیم لڑکی ہے جو اپنے ولی کی زیر پرورش ہو ‘ پھر ولی کے دل میں اس کا حسن اور اس کے مال کی طرف سے رغبت نکاح پیدا ہو جائے مگر اس کم مہر پر جو ویسی لڑکیوں کا ہونا چاہئے تو اس طرح نکاح کرنے سے روکا گیا لیکن یہ کہ ولی ان کے ساتھ پورے مہر کی ادائیگی میں انصاف سے کام لیں (تو نکاح کر سکتے ہیں) اور انہیں لڑکیوں کے سوا دوسری عورتوں سے نکاح کرنے کا حکم دیا گیا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی «ويستفتونك في النساء قل الله يفتيكم فيهن‏» آپ سے لوگ عورتوں کے متعلق پوچھتے ہیں آپ کہہ دیں کہ اللہ تمہیں ان کے بارے میں ہدایت کرتا ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ پھر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان کر دیا کہ یتیم لڑکی اگر جمال اور مال والی ہو اور (ان کے ولی) ان سے نکاح کرنے کے خواہشمند ہوں لیکن پورا مہر دینے میں ان کے (خاندان کے) طریقوں کی پابندی نہ کر سکیں تو (وہ ان سے نکاح مت کریں) جبکہ مال اور حسن کی کمی کی وجہ سے ان کی طرف انہیں کوئی رغبت نہ ہوتی ہو تو انہیں وہ چھوڑ دیتے اور ان کے سوا کسی دوسری عورت کو تلاش کرتے۔ راوی نے کہا جس طرح ایسے لوگ رغبت نہ ہونے کی صورت میں ان یتیم لڑکیوں کو چھوڑ دیتے ‘ اسی طرح ان کے لیے یہ بھی جائز نہیں کہ جب ان لڑکیوں کی طرف انہیں رغبت ہو تو ان کے پورے مہر کے معاملے میں اور ان کے حقوق ادا کرنے میں انصاف سے کام لیے بغیر ان سے نکاح کریں۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2068  
´ان عورتوں کا بیان جنہیں بیک وقت نکاح میں رکھنا جائز نہیں۔`
عروہ بن زبیر نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے اللہ تعالیٰ کے فرمان: «وإن خفتم ألا تقسطوا في اليتامى فانكحواء ما طاب لكم من النساء سورة النساء» ۱؎ کے بارے میں دریافت کیا تو ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: بھانجے! اس سے وہ یتیم لڑکی مراد ہے، جو اپنے ایسے ولی کی پرورش میں ہو جس کے مال میں وہ شریک ہو اور اس کی خوبصورتی اور اس کا مال اسے بھلا لگتا ہو اس کی وجہ سے وہ اس سے بغیر مناسب مہر ادا کئے نکاح کرنا چاہتا ہو (یعنی جتنا مہر اس کو اور کوئی دیتا اتنا بھی نہ دے رہا ہو) چنانچہ انہیں ان سے نکاح کرنے سے روک دیا گیا، اگ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2068]
فوائد ومسائل:
1: حدیث کا باب سے تعلق یہ ہے کہ اگر انسان اپنی زیر تولیت کسی یتیم بچی سے شرعی عدل وانصاف کے معیار پر پورا نہ اتر سکتا ہو تو اس سے نکاح نہ کرے خواہ پہلا ہو یا کسی دوسری بیوی کے ہوتے ہوئے ہو۔
اس میں تو اور بھی اندیشہ ہے کہ یتیم بچی ہونے کی وجہ سے اسے گھر کی لونڈی اور خادمہ ہی بنا لیا جائے۔

2: فہم قرآن کے لئے شان نزول کی ایک خاص اہمیت ہے بشرطیکہ صحیح سند سے ثابت ہو۔
اسی طرح ہر آیت کے لئےشان نزول تلاش کرنا بھی تکلف بارد ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2068   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2763  
2763. حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے، انھوں نے حضرت عائشہ ؓ سے اس آیت کریمہ کے متعلق سوا ل کیا: اوراگر تمھیں خطرہ ہو کہ یتیم لڑکیوں کے متعلق تم انصاف نہیں کرسکو گے تو پھر دوسری عورتوں سے نکاح کرلو جو تمھیں پسند ہوں۔ حضرت عائشہ ؓ نے اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: یتیم لڑکی اپنے سرپرست کی پرورش میں ہوتی تھی اور وہ اس کے حسن وجمال اور مال ومتاع میں رغبت کرتا لیکن وہ چاہتا کہ اس کے خاندان کی عورتوں کے مہر سے کم مہر کے عوض اس سے نکاح کرلے، اس لیے انھیں ایسی عورتوں کے ساتھ نکاح کرنے سے روک دیا گیا مگر اس صورت میں کہ ان کے حق مہر کی پوری ادائیگی کریں۔ اورانھیں حکم دیا گیا کہ ان کے علاوہ دوسری عورتوں سے نکاح کرلیں۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: پھر لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے بعد فتویٰ پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: یہ لوگ آپ سےعورتوں کےمتعلق فتویٰ پوچھتے ہیں تو آپ فرمادیں کہ اللہ تمھیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2763]
حدیث حاشیہ:
تاریخ و روایات میں مذکور ہے کہ یتیم لڑکیاں جو اپنے ولی کی تربیت میں ہوتی تھیں اور وہ لڑکی اس ولی کے مال وغیرہ میں بوجہ قرابت کے شریک ہوتی تواب دوصورتیں پیش آتی تھیں‘ کبھی تو یہ صورت پیش آتی کہ وہ لڑکی خوبصورت ہوتی اور ولی کو اس کے مال وجمال ہر دو کی رغبت کی وجہ سے اس سے نکاح کی خواہش ہوتی اور وہ تھوڑے سے مہر پر اس سے نکاح کرلیتا کیونکہ کوئی دوسرا شخص اس لڑکی کا دعویدار نہیں ہوتا تھا اور کبھی یہ صورت پیش آتی کہ یتیم لڑکی صورت شکل میں حسین نہ ہوتی مگر اس کا وہ ولی یہ خیال کرتا کہ دوسرے کسی سے اس کا نکاح کردوں گا تو لڑکی کا مال میرے قبضے سے نکل جائے گا۔
اس مصلحت سے وہ نکاح تو اس لڑکی سے طوعاً و کرھاً کرلیتا مگر ویسے اس سے کچھ رغبت نہ رکھتا۔
اس پر اس آیت کا نزول ہو ااور اولیاءکو ارشاد ہواکہ اگر تم کو اس بات کا ڈر ہے کہ تم ایسی یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کرسکو گے اور ان کے مہر اور ان کے ساتھ حسن معاشرت میں تم سے کوتاہی ہوگی تو تم ان سے نکاح مت کرو بلکہ اور عورتیں جو تم کو مرغوب ہوں ان سے ایک چھوڑ چار تک کی تم کو اجازت ہے۔
قاعدہ شرعیہ کے مطابق ان سے نکاح کرلو تاکہ یتیم لڑکیوں کو بھی نقصان نہ پہنچے کیونکہ تم ان کے حقوق کے حامی رہوگے اور تم بھی کسی گناہ میں نہ پڑوگے۔
باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے کہ بہرحال اولیاء کا فرض ہے کہ یتیم بچوں اور بچیوں کے مال کی خدا ترسی کے ساتھ حفاظت کریں اور ان کے بالغ ہونے پر جیسے ان کے حق میں بہتر جانیں وہ مال ان کو ادا کردیں۔
واللہ أعلم
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2763   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2763  
2763. حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے، انھوں نے حضرت عائشہ ؓ سے اس آیت کریمہ کے متعلق سوا ل کیا: اوراگر تمھیں خطرہ ہو کہ یتیم لڑکیوں کے متعلق تم انصاف نہیں کرسکو گے تو پھر دوسری عورتوں سے نکاح کرلو جو تمھیں پسند ہوں۔ حضرت عائشہ ؓ نے اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: یتیم لڑکی اپنے سرپرست کی پرورش میں ہوتی تھی اور وہ اس کے حسن وجمال اور مال ومتاع میں رغبت کرتا لیکن وہ چاہتا کہ اس کے خاندان کی عورتوں کے مہر سے کم مہر کے عوض اس سے نکاح کرلے، اس لیے انھیں ایسی عورتوں کے ساتھ نکاح کرنے سے روک دیا گیا مگر اس صورت میں کہ ان کے حق مہر کی پوری ادائیگی کریں۔ اورانھیں حکم دیا گیا کہ ان کے علاوہ دوسری عورتوں سے نکاح کرلیں۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: پھر لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے بعد فتویٰ پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: یہ لوگ آپ سےعورتوں کےمتعلق فتویٰ پوچھتے ہیں تو آپ فرمادیں کہ اللہ تمھیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2763]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کی عنوان سے مناسبت اس طرح ہے کہ اوقاف کی حفاظت اس شخص کے ذمے ہے جو ان کا متولی ہو جس طرح یتیموں کے مال کی نگہداشت ان کے سرپرستوں کے ذمے ہے تاکہ وہ ان کے اموال کی حفاظت اور خیال کریں۔
(2)
مذکورہ آیات و حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر کسی کے پاس یتیم لڑکی ہو اور وہ اسے مہر مثل ادا نہ کر سکتا ہو تو وہ نکاح کے لیے دوسری عورتوں کی طرف رجوع کرے کیونکہ یتیم لڑکی کے علاوہ اور عورتیں بکثرت ہیں۔
اور اگر ضرور یتیم لڑکی سے نکاح کرنا ہے تو اس کا حق مہر پورا ادا کیا جائے جو اس کی ہم عصر عورتوں کا ہے، اس میں کسی قسم کی کمی نہ کی جائے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2763