صحيح البخاري
كِتَاب الْوَصَايَا -- کتاب: وصیتوں کے مسائل کا بیان
22M. بَابُ وَمَا لِلْوَصِيِّ أَنْ يَعْمَلَ فِي مَالِ الْيَتِيمِ، وَمَا يَأْكُلُ مِنْهُ بِقَدْرِ عُمَالَتِهِ:
باب: وصی کے لیے یتیم کے مال میں تجارت اور محنت کرنا درست ہے اور پھر محنت کے مطابق اس میں سے کھا لینا درست ہے۔
{حَسِيبًا} يَعْنِي كَافِيًا.
‏‏‏‏ آیت میں «حسيبا» کے معنی کافی کے ہیں۔
حدیث نمبر: 2764
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ الْأَشْعَثِ، حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، حَدَّثَنَا صَخْرُ بْنُ جُوَيْرِيَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ عُمَرَ تَصَدَّقَ بِمَالٍ لَهُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ يُقَالُ لَهُ: ثَمْغٌ، وَكَانَ نَخْلًا، فَقَالَ: عُمَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي اسْتَفَدْتُ مَالًا وَهُوَ عِنْدِي نَفِيسٌ فَأَرَدْتُ أَنْ أَتَصَدَّقَ بِهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" تَصَدَّقْ بِأَصْلِهِ لَا يُبَاعُ، وَلَا يُوهَبُ، وَلَا يُورَثُ، وَلَكِنْ يُنْفَقُ ثَمَرُهُ"، فَتَصَدَّقَ بِهِ عُمَرُ، فَصَدَقَتُهُ ذَلِكَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَفِي الرِّقَابِ، وَالْمَسَاكِينِ، وَالضَّيْفِ، وَابْنِ السَّبِيلِ، وَلِذِي الْقُرْبَى، وَلَا جُنَاحَ عَلَى مَنْ وَلِيَهُ أَنْ يَأْكُلَ مِنْهُ بِالْمَعْرُوفِ، أَوْ يُوكِلَ صَدِيقَهُ غَيْرَ مُتَمَوِّلٍ بِهِ.
ہم سے ہارون بن اشعث نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے بنو ہاشم کے غلام ابوسعید نے بیان کیا ‘ ان سے صخر بن جویریہ نے بیان کیا نافع سے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی ایک جائیداد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں وقف کر دی ‘ اس جائیداد کا نام ثمغ تھا اور یہ ایک کھجور کا ایک باغ تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے ایک جائیداد ملی ہے اور میرے خیال میں نہایت عمدہ ہے ‘ اس لیے میں نے چاہا کہ اسے صدقہ کر دوں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اصل مال کو صدقہ کر کہ نہ بیچا جا سکے نہ ہبہ کیا جا سکے اور نہ اس کا کوئی وارث بن سکے ‘ صرف اس کا پھل (اللہ کی راہ میں) صرف ہو۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے اسے صدقہ کر دیا ‘ ان کا یہ صدقہ غازیوں کے لیے ‘ غلام آزاد کرانے کے لیے، محتاجوں اور کمزوروں کے لیے ‘ مسافروں کے لیے اور رشتہ داروں کے لیے تھا اور یہ کہ اس کے نگراں کے لیے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہو گا کہ وہ دستور کے موافق اس میں سے کھائے یا اپنے کسی دوست کو کھلائے بشرطیکہ اس میں سے مال جمع کرنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2764  
2764. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، کہ حضرت عمر ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں اپنا مال صدقہ کیا۔ وہ کھجوروں کا باغ تھا جسے ثمغ کہا جاتا تھا۔ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!مجھے ایک جائیداد ملی ہے اور میرے نزدیک یہ نہایت ہی عمدہ مال ہے۔ میں اسے صدقہ کرنا چاہتا ہوں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: اصل مال کو اس طرح صدقہ کرو کہ اسے نہ فروخت کیا جائے اور نہ کسی کو ہبہ دیا جائے، نیزاسے بطور وراثت تقسیم نہ کیا جائے لیکن اس کی پیداوار اور پھل وغیرہ استعمال کیا جاتا رہے۔ تو حضرت عمر ؓ نے اسے صدقہ کردیا۔ ان کا یہ صدقہ فی سبیل اللہ، نیز غلام آزادکرنے، مسکینوں، مہمانوں، مسافروں اور قریبی رشتہ داروں کے لیے تھا۔ اور جو کوئی اس کا نگران ہو وہ اس سے معروف طریقے سے کھاسکتا ہے، اس پر کوئی گناہ نہیں، اور اپنے احباب کو بھی کھلا سکتا ہے بشرطیکہ اس میں سے مال جمع کرنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2764]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ وقف کا متولی اپنی محنت کے عوض دستور کے موافق اس میں سے کھا سکتا ہے جیسا کہ حضرت عمر ؓ نے اپنا باغ وقف فرماتے وقت طے کر دیا تھا۔
امام قسطلانی ؒ فرماتے ہیں:
ومطابقة الحدیث للترجمة من جھة أن المقصود جواز أخذ الأجرة من مال الیتیم لقول عمر ولا جناح علی من ولیه أن یأکل منه بالمعروف (قسطلانی)
مطلب وہی ہے جو اوپر مذکور ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2764   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2764  
2764. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، کہ حضرت عمر ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں اپنا مال صدقہ کیا۔ وہ کھجوروں کا باغ تھا جسے ثمغ کہا جاتا تھا۔ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!مجھے ایک جائیداد ملی ہے اور میرے نزدیک یہ نہایت ہی عمدہ مال ہے۔ میں اسے صدقہ کرنا چاہتا ہوں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: اصل مال کو اس طرح صدقہ کرو کہ اسے نہ فروخت کیا جائے اور نہ کسی کو ہبہ دیا جائے، نیزاسے بطور وراثت تقسیم نہ کیا جائے لیکن اس کی پیداوار اور پھل وغیرہ استعمال کیا جاتا رہے۔ تو حضرت عمر ؓ نے اسے صدقہ کردیا۔ ان کا یہ صدقہ فی سبیل اللہ، نیز غلام آزادکرنے، مسکینوں، مہمانوں، مسافروں اور قریبی رشتہ داروں کے لیے تھا۔ اور جو کوئی اس کا نگران ہو وہ اس سے معروف طریقے سے کھاسکتا ہے، اس پر کوئی گناہ نہیں، اور اپنے احباب کو بھی کھلا سکتا ہے بشرطیکہ اس میں سے مال جمع کرنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2764]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ وقف کا نگران اپنی محنت کے عوض دستور کے مطابق اس سے کھا سکتا ہے جیسا کہ حضرت عمر ؓ نے باغ وقف کرتے وقت طے کر دیا تھا۔
اسی طرح یتیم کا مال تجارت میں لگانا، پھر اس سے محنت کا عوضانہ وصول کرنا جائز ہے بشرطیکہ عرف کے مطابق ہو۔
اسے ذخیرہ اندوزی کا بہانہ بنانا درست نہیں جیسا کہ آئندہ حدیث عائشہ میں اس کی وضاحت ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2764