سنن ترمذي
كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
47. باب مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ عَلَى الْقَبْرِ
باب: قبر پر نماز جنازہ پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1037
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا الشَّيْبَانِيُّ، حَدَّثَنَا الشَّعْبِيُّ، أَخْبَرَنِي مَنْ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَأَى قَبْرًا مُنْتَبِذًا، فَصَفَّ أَصْحَابَهُ خَلْفَهُ فَصَلَّى عَلَيْهِ، فَقِيلَ لَهُ: مَنْ أَخْبَرَكَهُ؟ فَقَالَ: ابْنُ عَبَّاسٍ. قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَنَسٍ، وَبُرَيْدَةَ، وَيَزِيدَ بْنِ ثَابِتٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، وَأَبِي قَتَادَةَ، وَسَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لَا يُصَلَّى عَلَى الْقَبْرِ، وَهُوَ قَوْلُ: مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ: إِذَا دُفِنَ الْمَيِّتُ وَلَمْ يُصَلَّ عَلَيْهِ، صُلِّيَ عَلَى الْقَبْرِ، وَرَأَى ابْنُ الْمُبَارَكِ الصَّلَاةَ عَلَى الْقَبْرِ، وقَالَ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق: يُصَلَّى عَلَى الْقَبْرِ إِلَى شَهْرٍ، وَقَالَا: أَكْثَرُ مَا سَمِعْنَا عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ، " أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى عَلَى قَبْرِ أُمِّ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ بَعْدَ شَهْرٍ ".
شعبی کا بیان ہے کہ مجھے ایک ایسے شخص نے خبر دی ہے جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے ایک قبر الگ تھلگ دیکھی تو اپنے پیچھے صحابہ کی صف بندی کی اور اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔ شعبی سے پوچھا گیا کہ آپ کو یہ خبر کس نے دی۔ تو انہوں نے کہا: ابن عباس رضی الله عنہما نے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عباس کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں انس، بریدہ، یزید بن ثابت، ابوہریرہ، عامر بن ربیعہ، ابوقتادہ اور سہل بن حنیف سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے،
۴- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ قبر پر نماز پڑھی جائے گی ۱؎ یہ مالک بن انس کا قول ہے،
۵ - عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں کہ جب میت کو دفن کر دیا جائے اور اس کی نماز جنازہ نہ پڑھی گئی ہو تو اس کی نماز جنازہ قبر پر پڑھی جائے گی،
۶- ابن مبارک قبر پر نماز (جنازہ) پڑھنے کے قائل ہیں،
۷- احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: قبر پر نماز ایک ماہ تک پڑھی جا سکتی ہے۔ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اکثر سنا ہے سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن عبادہ کی والدہ کی نماز جنازہ ایک ماہ کے بعد قبر پر پڑھی۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان61 (857) والجنائز5 (1247) و54 (1419) و55 (1324) 59 (1326) و66 (1336) و69 (1340) صحیح مسلم/الجنائز23 (954) سنن ابی داود/ الجنائز58 (3196) سنن النسائی/الجنائز94 (2025) سنن ابن ماجہ/الجنائز32 (1530) (تحفة الأشراف: 5766) مسند احمد (1/338) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یہ لوگ باب کی حدیث کا جواب یہ دیتے ہیں کہ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص تھا کیونکہ مسلم کی روایت میں ہے «إن هذه القبور مملوؤة مظالم على أهلها وأن الله ينورها لهم بصلاة عليهم» ان لوگوں کا کہنا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز قبر کو منور کرنے کے لیے تھی اور یہ دوسروں کی نماز میں نہیں پائی جاتی ہے لہٰذا قبر پر نماز جنازہ پڑھنا مشروع نہیں جمہور اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ جن لوگوں نے آپ کے ساتھ قبر پر نماز جنازہ پڑھی آپ نے انہیں منع نہیں کیا ہے کیونکہ یہ جائز ہے اور اگر یہ آپ ہی کے لیے خاص ہوتا دوسروں کے لیے جائز نہ ہوتا تو آپ انہیں ضرور منع فرما دیتے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1530)
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1037  
´قبر پر نماز جنازہ پڑھنے کا بیان۔`
شعبی کا بیان ہے کہ مجھے ایک ایسے شخص نے خبر دی ہے جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے ایک قبر الگ تھلگ دیکھی تو اپنے پیچھے صحابہ کی صف بندی کی اور اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔ شعبی سے پوچھا گیا کہ آپ کو یہ خبر کس نے دی۔ تو انہوں نے کہا: ابن عباس رضی الله عنہما نے۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1037]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ لوگ باب کی حدیث کاجواب یہ دیتے ہیں کہ یہ نبی اکرمﷺ کے لیے خاص تھا کیونکہ مسلم کی روایت میں ہے (إن هذه القبور مملوؤة مظالم على أهلها وأن الله ينورها لهم بصلاة عليهم) ان لوگوں کا کہنا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی صلاۃ قبرکو منورکرنے کے لیے تھی اوریہ دوسروں کی صلاۃ میں نہیں پائی جاتی ہے لہٰذا قبرپر صلاۃِجنازہ پڑھنا مشروع نہیں جمہوراس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ جن لوگوں نے آپ کے ساتھ قبرپر صلاۃِجنازہ پڑھی آپ نے انھیں منع نہیں کیا ہے کیونکہ یہ جائزہے اور اگریہ آپ ہی کے لیے خاص ہوتادوسروں کے لیے جائزنہ ہوتا توآپ انھیں ضرور منع فرما دیتے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1037