صحيح البخاري
كِتَاب الْوَصَايَا -- کتاب: وصیتوں کے مسائل کا بیان
22M. بَابُ وَمَا لِلْوَصِيِّ أَنْ يَعْمَلَ فِي مَالِ الْيَتِيمِ، وَمَا يَأْكُلُ مِنْهُ بِقَدْرِ عُمَالَتِهِ:
باب: وصی کے لیے یتیم کے مال میں تجارت اور محنت کرنا درست ہے اور پھر محنت کے مطابق اس میں سے کھا لینا درست ہے۔
حدیث نمبر: 2765
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا وَمَنْ كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ وَمَنْ كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ سورة النساء آية 6، قَالَتْ: أُنْزِلَتْ فِي وَالِي الْيَتِيمِ أن يصيب من ماله، إذا كان محتاجا بقدر ماله بالمعروف".
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ہشام سے ‘ ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے (قرآن مجید کی اس آیت) «ومن كان غنيا فليستعفف ومن كان فقيرا فليأكل بالمعرو» اور جو شخص مالدار ہو وہ اپنے کو یتیم کے مال سے بالکل روکے رکھے ‘ البتہ جو شخص نادار ہو تو وہ دستور کے مطابق کھا سکتا ہے کے بارے میں فرمایا کہ یتیموں کے ولیوں کے بارے میں نازل ہوئی کہ یتیم کے مال میں سے اگر ولی نادار ہو تو دستور کے مطابق اس کے مال میں سے لے سکتا ہے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2765  
2765. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے اس آیت کریمہ کے متعلق فرمایا: جو مالدار ہے وہ خود کو یتیم کے مال سے بچائے رکھے، البتہ جو محتاج ہو وہ دستور کے مطابق کھا سکتا ہے۔ یہ آیت کریمہ یتیم کے متولی کے متعلق نازل ہوئی۔ اگر وہ ضرورت مند اور محتاج ہو تو وہ یتیم کے مال سے بقدر ضرورت دستور کے مطابق لے سکتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2765]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے باب کا پہلا حصہ یعنی یتیموں کے مال میں نیک نیتی سے تجارت کرنا‘ پھر اپنی محنت کے مطابق اس میں سے کھانا درست ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2765   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2765  
2765. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے اس آیت کریمہ کے متعلق فرمایا: جو مالدار ہے وہ خود کو یتیم کے مال سے بچائے رکھے، البتہ جو محتاج ہو وہ دستور کے مطابق کھا سکتا ہے۔ یہ آیت کریمہ یتیم کے متولی کے متعلق نازل ہوئی۔ اگر وہ ضرورت مند اور محتاج ہو تو وہ یتیم کے مال سے بقدر ضرورت دستور کے مطابق لے سکتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2765]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس روایت کا حاصل یہ ہے کہ یتیم کے مال کو تجارت میں لگانا جائز ہے، اس میں محنت کی جائے۔
اگر یتیم کا متولی مال دار ہے تو یہ خدمت فی سبیل اللہ انجام دے۔
اگر محتاج ہے تو ضرورت کے مطابق یا بقدر عمل لینے کی اجازت ہے۔
(2)
یتیم کے علاوہ دیگر معاملات میں اگر کوئی شخص محبوس (کسی کام کی وجہ سے مصروف، یعنی خدمت وغیرہ میں)
ہے تو وہ اپنے کام اور محنت کے مطابق اس کا عوضانہ لے سکتا ہے، خواہ محنت کرنے والا مال دار ہو یا تنگدست، البتہ یتیم کے مال میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ اس احتیاط کے متعلق نص صریح ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2765