سنن ترمذي
كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
55. باب مَا جَاءَ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ يُلْقَى تَحْتَ الْمَيِّتِ فِي الْقَبْرِ
باب: قبر میں میت کے نیچے کپڑا بچھانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1047
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ الطَّائِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ فَرْقَدٍ، قَال: سَمِعْتُ جَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: " الَّذِي أَلْحَدَ قَبْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبُو طَلْحَةَ، وَالَّذِي أَلْقَى الْقَطِيفَةَ تَحْتَهُ شُقْرَانُ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ". قَالَ جَعْفَرٌ: وَأَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي رَافِعٍ، قَال: سَمِعْتُ شُقْرَانَ، يَقُولُ: أَنَا وَاللَّهِ طَرَحْتُ الْقَطِيفَةَ تَحْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْقَبْرِ، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ شُقْرَانَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَرَوَى عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ فَرْقَدٍ هَذَا الْحَدِيثَ.
عثمان بن فرقد کہتے ہیں کہ میں نے جعفر بن محمد سے سنا وہ اپنے باپ سے روایت کر رہے تھے جس آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر بغلی بنائی، وہ ابوطلحہ ہیں اور جس نے آپ کے نیچے چادر بچھائی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مولی ٰ شقران ہیں، جعفر کہتے ہیں: اور مجھے عبیداللہ بن ابی رافع نے خبر دی وہ کہتے ہیں کہ میں نے شقران کو کہتے سنا: اللہ کی قسم! میں نے قبر میں رسول اللہ کے نیچے چادر ۱؎ بچھائی تھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- شقران کی حدیث حسن غریب ہے،
۲- اس باب میں ابن عباس سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 4846) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یہ چادر جھالردار تھی جسے شقران نے قبر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نیچے بچھایا تھا تاکہ اسے آپ کے بعد کوئی استعمال نہ کر سکے خود شقران کا بیان ہے کہ «كرهت أن يلبسها أحد بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم» امام شافعی اور ان کے اصحاب اور دیگر بہت سے علماء نے قبر میں کوئی چادر یا تکیہ وغیرہ رکھنے کو مکروہ کہا ہے اور یہی جمہور کا قول ہے اور اس حدیث کا جواب ان لوگوں نے یہ دیا ہے کہ ایسا کرنے میں شقران منفرد تھے صحابہ میں سے کسی نے بھی ان کی موافقت نہیں کی تھی اور صحابہ کرام کو یہ معلوم نہیں ہو سکا تھا اور واقدی نے علی بن حسین سے روایت کی ہے کہ لوگوں کو جب اس کا علم ہوا تو انہوں نے اسے نکلوا دیا تھا، ابن عبدالبر نے قطعیت کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ مٹی ڈال کر قبر برابر کرنے سے پہلے یہ چادر نکال دی گئی تھی اور ابن سعد نے طبقات ۲/۲۹۹ میں وکیع کا قول نقل کیا ہے کہ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص ہے اور حسن بصری سے ایک روایت میں ہے کہ زمین گیلی تھی اس لیے یہ سرخ چادر بچھائی گئی تھی جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اوڑھتے تھے اور حسن بصری ہی سے ایک دوسری روایت میں ہے کہ «قال رسول الله صلى الله عليه وسلم فرشوا لي قطيفتي في لحدي فإن الأرض لم تسلط على أجساد الأنبياء» ان تمام روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ چادر نکال دی گئی تھی اور اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ نہیں نکالی گئی تھی تو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص مانا جائے گا دوسروں کے لیے ایسا کرنا درست نہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1047  
´قبر میں میت کے نیچے کپڑا بچھانے کا بیان۔`
عثمان بن فرقد کہتے ہیں کہ میں نے جعفر بن محمد سے سنا وہ اپنے باپ سے روایت کر رہے تھے جس آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر بغلی بنائی، وہ ابوطلحہ ہیں اور جس نے آپ کے نیچے چادر بچھائی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مولی ٰ شقران ہیں، جعفر کہتے ہیں: اور مجھے عبیداللہ بن ابی رافع نے خبر دی وہ کہتے ہیں کہ میں نے شقران کو کہتے سنا: اللہ کی قسم! میں نے قبر میں رسول اللہ کے نیچے چادر ۱؎ بچھائی تھی۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1047]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ چادرجھالردارتھی جسے شقران نے قبرمیں نبی اکرمﷺ کے نیچے بچھایا تھا تاکہ اسے آپ کے بعد کوئی استعمال نہ کرسکے خود شقران کا بیان ہے کہ (كرهت أن يلبسها أحد بعد رسول الله ﷺ) امام شافعی اوران کے اصحاب اور دیگربہت سے علماء نے قبرمیں کوئی چادریاتکیہ وغیرہ رکھنے کو مکروہ کہا ہے اوریہی جمہور کاقول ہے اوراس حدیث کا جواب ان لوگوں نے یہ دیا ہے کہ ایسا کرنے میں شقران منفرد تھے صحابہ میں سے کسی نے بھی ان کی موافقت نہیں کی تھی اورصحابہ کرام کو یہ معلوم نہیں ہوسکا تھا اور واقدی نے علی بن حسین سے روایت کی ہے کہ لوگوں کو جب اس کاعلم ہواتوانھوں نے اُسے نکلوا دیا تھا،
ابن عبدالبرنے قطعیت کے ساتھ ذکرکیا ہے کہ مٹی ڈال کر قبر برابرکرنے سے پہلے یہ چادرنکال دی گئی تھی اورابن سعدنے طبقات 2/299میں وکیع کا قول نقل کیا ہے کہ یہ نبی اکرمﷺ کے لیے خاص ہے اورحسن بصری سے ایک روایت میں ہے کہ زمین گیلی تھی اس لیے یہ سرخ چادربچھائی گئی تھی جسے آپ ﷺ اوڑھتے تھے اورحسن بصری ہی سے ایک دوسری روایت میں ہے کہ (قال رسول الله ﷺ فرشوا لي قطيفتي في لحدي فإن الأرض لم تسلط على أجساد الأنبياء) ان تمام روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ چادرنکال دی گئی تھی اوراگریہ مان بھی لیاجائے کہ نہیں نکالی گئی تھی تو اسے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خاص ماناجائے گا دوسروں کے لیے ایساکرنا درست نہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1047