سنن ترمذي
كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
69. باب مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ عَلَى الْمَدْيُونِ
باب: قرض دار کی نماز جنازہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 1070
حَدَّثَنِي أَبُو الْفَضْلِ مَكْتُومُ بْنُ الْعَبَّاسِ التِّرْمِذِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُؤْتَى بِالرَّجُلِ الْمُتَوَفَّى عَلَيْهِ الدَّيْنُ، فَيَقُولُ: " هَلْ تَرَكَ لِدَيْنِهِ مِنْ قَضَاءٍ "، فَإِنْ حُدِّثَ أَنَّهُ تَرَكَ وَفَاءً صَلَّى عَلَيْهِ، وَإِلَّا قَالَ لِلْمُسْلِمِينَ: " صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ "، فَلَمَّا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْفُتُوحَ قَامَ، فَقَالَ: " أَنَا أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ، فَمَنْ تُوُفِّيَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ فَتَرَكَ دَيْنًا عَلَيَّ قَضَاؤُهُ، وَمَنْ تَرَكَ مَالًا فَهُوَ لِوَرَثَتِهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاهُ يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ، نَحْوَ حَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَالِحٍ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی فوت شدہ شخص جس پر قرض ہو لایا جاتا تو آپ پوچھتے: کیا اس نے اپنے قرض کی ادائیگی کے لیے کچھ چھوڑا ہے؟ اگر آپ کو بتایا جاتا کہ اس نے اتنا مال چھوڑا ہے جس سے اس کے قرض کی مکمل ادائیگی ہو جائے گی تو آپ اس کی نماز جنازہ پڑھاتے، ورنہ مسلمانوں سے فرماتے: تم لوگ اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھ لو (میں نہیں پڑھ سکتا)، پھر جب اللہ نے آپ کے لیے فتوحات کا دروازہ کھولا تو آپ کھڑے ہوئے اور آپ نے فرمایا: میں مسلمانوں کا ان کی اپنی جانوں سے زیادہ حقدار ہوں۔ تو مسلمانوں میں سے جس کی موت ہو جائے اور وہ قرض چھوڑ جائے تو اس کی ادائیگی میرے ذمہ ہے اور جو کوئی مال چھوڑ کر جائے تو وہ اس کے وارثوں کا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اسے یحییٰ بن بکیر اور دیگر کئی لوگوں نے لیث بن سعد سے عبداللہ بن صالح کی حدیث کی طرح روایت کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الکفارة 5 (2298) والنفقات 15 (5371) صحیح مسلم/الفرائض 4 (1619) (تحفة الأشراف: 152116) مسند احمد (2/453) (صحیح) وأخرجہ کل من: سنن النسائی/الجنائز67 (1965) سنن ابن ماجہ/الصدقات13 (2415) مسند احمد (2/290) من غیر ہذا الوجہ، وأخرجہ: صحیح البخاری/الاستقراض 11 (2398، 2399) وتفسیر الاقراب 1 (4791) والفرائض 4 (6731) و15 (6745) و25 (6763) صحیح مسلم/الفرائض (المصدرالمذکور) مسند احمد (2/456) مغتصرا ومن غیر ہذا الوجہ۔»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2415)
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2090  
´ترکہ کے مستحق میت کے وارث ہیں۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے (مرنے کے بعد) کوئی مال چھوڑا تو وہ اس کے وارثوں کا ہے، اور جس نے ایسی اولاد چھوڑی جس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے تو اس کی کفالت میرے ذمہ ہے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الفرائض/حدیث: 2090]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1 ؎:
ایسے مسلمان یتیموں اوربیواؤں کی کفالت اس حدیث کی رُوسے مسلم حاکم کے ذمّے ہے کہ جن کا مورث اُن کے لیے کوئی وراثت چھوڑکرنہ مراہو۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2090