سنن ترمذي
كتاب النكاح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
6. باب مَا جَاءَ فِي إِعْلاَنِ النِّكَاحِ
باب: نکاح کے اعلان کا بیان۔
حدیث نمبر: 1088
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو بَلْجٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَاطِبٍ الْجُمَحِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَصْلُ مَا بَيْنَ الْحَرَامِ وَالْحَلَالِ الدُّفُّ وَالصَّوْتُ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَائِشَةَ، وَجَابِرٍ، وَالرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ مُحَمَّدِ بْنِ حَاطِبٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَأَبُو بَلْجٍ اسْمُهُ: يَحْيَى بْنُ أَبِي سُلَيْمٍ وَيُقَالُ: ابْنُ سُلَيْمٍ أَيْضًا، وَمُحَمَّدُ بْنُ حَاطِبٍ قَدْ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ غُلَامٌ صَغِيرٌ.
محمد بن حاطب جمحی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حرام اور حلال (نکاح) کے درمیان فرق صرف دف بجانے اور اعلان کرنے کا ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- محمد بن حاطب کی حدیث حسن ہے،
۲- محمد بن حاطب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے، لیکن وہ کم سن بچے تھے،
۳- اس باب میں ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا، جابر اور ربیع بنت معوذ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن النسائی/النکاح 72 (3372)، سنن ابن ماجہ/النکاح 20 (1896)، (تحفة الأشراف: 11221)، مسند احمد (3/418) (حسن)»

وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نکاح اعلانیہ کیا جانا چاہیئے، خفیہ طور پر چوری چھپے نہیں، اس لیے کہ اعلانیہ نکاح کرنے پر کسی کو میاں بیوی کے تعلقات پر انگلی اٹھانے کا موقع نہیں ملتا۔ عموماً یہی دیکھنے میں آتا ہے کہ غلط نکاح ہی چھپ کر کیا جاتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (1896)
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1896  
´نکاح کے اعلان کرنے کا بیان۔`
محمد بن حاطب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حلال اور حرام میں فرق یہ ہے کہ نکاح میں دف بجایا جائے، اور اس کا اعلان کیا جائے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1896]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ازدواجی تعلقات قائم کرنے کا شرعی طریقہ نکاح کا ہے۔
اس میں عام لوگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ فلاں کا فلاں سے نکاح ہوا ہے جب کہ ناجائز تعلقات خفیہ طور پر قائم کیے جاتے ہیں اور کوشش کی جاتی ہے کہ لوگوں کو ان تعلقات کا علم نہ ہونے پائے۔
نکاح میں گواہ مقرر کرنے کا یہی مقصد ہے۔

(2)
شادی کے موقع پر دف بجانے کا بھی یہی مقصد ہے کہ سب لوگوں کو شادی کا علم ہو جائے۔
اس موقع پر گیت وغیرہ بھی گائے جا سکتے ہیں بشرطیکہ ان کے الفاظ شریعت کی تعلیمات کے منافی نہ ہوں۔
اور گانے والیاں نابالغ بچیاں ہوں۔
خوشی کے اسی انداز سے اظہار عید کے ایام میں بھی جائز ہے۔

(3)
دف ڈھول سے ملتی جلتی ایک چیز ہے۔
جس میں صرف ایک طرف چمڑا لگا ہوتا ہے جبکہ ڈھول میں دونوں طرف چمڑا لگا ہوتا ہے، اس لیے دف کی آواز اتنی زیادہ بلند اور خوش کن نہیں ہوتی۔

(4)
بعض لوگ دف کے جواز سے ہر قسم کے راگ رنگ کا جواز ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ استدلال درست نہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے دف کی اجازت دینے کے باوجود خود اس میں دلچسپی نہیں لی۔ (صحیح البخاري، العیدین، باب الحراب والدرق یوم العید، حدیث: 949)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1896   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1088  
´نکاح کے اعلان کا بیان۔`
محمد بن حاطب جمحی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حرام اور حلال (نکاح) کے درمیان فرق صرف دف بجانے اور اعلان کرنے کا ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب النكاح/حدیث: 1088]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے معلوم ہواکہ نکاح اعلانیہ کیا جاناچاہئے،
خفیہ طورپر چوری چھپے نہیں،
اس لیے کہ اعلانیہ نکاح کرنے پرکسی کو میاں بیوی کے تعلقات پر انگلی اٹھانے کا موقع نہیں ملتا۔
عموماً یہی دیکھنے میں آتا ہے کہ غلط نکاح ہی چھپ کر کیا جاتاہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1088