سنن ترمذي
كتاب الطلاق واللعان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: طلاق اور لعان کے احکام و مسائل
16. باب
باب: طلاق سے متعلق ایک اور باب۔
حدیث نمبر: 1192
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ شَبِيبٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ النَّاسُ وَالرَّجُلُ يُطَلِّقُ امْرَأَتَهُ مَا شَاءَ، أَنْ يُطَلِّقَهَا وَهِيَ امْرَأَتُهُ إِذَا ارْتَجَعَهَا وَهِيَ فِي الْعِدَّةِ، وَإِنْ طَلَّقَهَا مِائَةَ مَرَّةٍ أَوْ أَكْثَرَ حَتَّى قَالَ رَجُلٌ لِامْرَأَتِهِ: وَاللَّهِ لَا أُطَلِّقُكِ فَتَبِينِي مِنِّي وَلَا آوِيكِ أَبَدًا، قَالَتْ: وَكَيْفَ ذَاكَ؟، قَالَ: أُطَلِّقُكِ فَكُلَّمَا هَمَّتْ عِدَّتُكِ أَنْ تَنْقَضِيَ رَاجَعْتُكِ، فَذَهَبَتِ الْمَرْأَةُ حَتَّى دَخَلَتْ عَلَى عَائِشَةَ فَأَخْبَرَتْهَا، فَسَكَتَتْ عَائِشَةُ حَتَّى جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَتْهُ، فَسَكَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى نَزَلَ الْقُرْآنُ: الطَّلاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ سورة البقرة آية 229، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَاسْتَأْنَفَ النَّاسُ الطَّلَاقَ مُسْتَقْبَلًا مَنْ كَانَ طَلَّقَ، وَمَنْ لَمْ يَكُنْ طَلَّقَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ لوگوں کا حال یہ تھا کہ آدمی اپنی بیوی کو جتنی طلاقیں دینی چاہتا دے دینا رجوع کر لینے کی صورت میں وہ اس کی بیوی بنی رہتی، اگرچہ اس نے سویا اس سے زائد بار اسے طلاق دی ہو، یہاں تک کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا: اللہ کی قسم! میں تجھے نہ طلاق دوں گا کہ تو مجھ سے جدا ہو جائے اور نہ تجھے کبھی پناہ ہی دوں گا۔ اس نے کہا: یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اس نے کہا: میں تجھے طلاق دوں گا پھر جب عدت پوری ہونے کو ہو گی تو رجعت کر لوں گا۔ اس عورت نے عائشہ رضی الله عنہا کے پاس آ کر انہیں یہ بات بتائی تو عائشہ رضی الله عنہا خاموش رہیں، یہاں تک کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو عائشہ رضی الله عنہا نے آپ کو اس کی خبر دی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی خاموش رہے یہاں تک کہ قرآن نازل ہوا «الطلاق مرتان فإمساك بمعروف أو تسريح بإحسان» طلاق (رجعی) دو ہیں، پھر یا تو معروف اور بھلے طریقے سے روک لینا ہے یا بھلائی سے رخصت کر دینا ہے (البقرہ: ۲۲۹)۔ عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں: تو لوگوں نے طلاق کو آئندہ نئے سرے سے شمار کرنا شروع کیا، جس نے طلاق دے رکھی تھی اس نے بھی، اور جس نے نہیں دی تھی اس نے بھی۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 17337) (ضعیف) (سند میں ”یعلی“ لین الحدیث ہیں) لیکن ابن عباس رضی الله عنہما کی روایت سے اس کا معنی صحیح ہے (دیکھئے ارواء رقم: 2080)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الإرواء (7 / 162)
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1192  
´طلاق سے متعلق ایک اور باب۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ لوگوں کا حال یہ تھا کہ آدمی اپنی بیوی کو جتنی طلاقیں دینی چاہتا دے دینا رجوع کر لینے کی صورت میں وہ اس کی بیوی بنی رہتی، اگرچہ اس نے سویا اس سے زائد بار اسے طلاق دی ہو، یہاں تک کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا: اللہ کی قسم! میں تجھے نہ طلاق دوں گا کہ تو مجھ سے جدا ہو جائے اور نہ تجھے کبھی پناہ ہی دوں گا۔ اس نے کہا: یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اس نے کہا: میں تجھے طلاق دوں گا پھر جب عدت پوری ہونے کو ہو گی تو رجعت کر لوں گا۔ اس عورت نے عائشہ رضی الله عنہا کے پاس آ کر انہیں یہ بات بتائی تو عائشہ رضی الله عنہا خاموش رہیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الطلاق واللعان/حدیث: 1192]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(سند میں یعلی لین الحدیث ہیں) لیکن ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت سے اس کا معنی صحیح ہے (دیکھئے:
ارواء رقم: 2080)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1192   
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ نَحْوَ هَذَا الْحَدِيثِ بِمَعْنَاهُ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَ 12 أَبُو عِيسَى: وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ يَعْلَى بْنِ شَبِيبٍ.
دوسری سند سے ہشام بن عروہ نے اپنے والد ہشام سے اسی حدیث کی طرح اسی مفہوم کے ساتھ روایت کی ہے اور اس میں ابوکریب نے عائشہ کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ یعلیٰ بن شبیب کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے (یعنی: مرفوع ہونا زیادہ صحیح ہے)۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 19036) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الإرواء (7 / 162)