سنن ترمذي
كتاب البيوع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
26. باب مَا جَاءَ فِي الْبَيِّعَيْنِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا
باب: بیچنے والا اور خریدار دونوں کو جب تک وہ جدا نہ ہوں بیع کو باقی رکھنے یا فسخ کرنے کا اختیار ہے۔
حدیث نمبر: 1246
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ صَالِحٍ أَبِي الْخَلِيلِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا فَإِنْ صَدَقَا وَبَيَّنَا بُورِكَ لَهُمَا فِي بَيْعِهِمَا، وَإِنْ كَتَمَا وَكَذَبَا مُحِقَتْ بَرَكَةُ بَيْعِهِمَا "، هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ وَهَكَذَا رُوِيَ، عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ وَهَكَذَا رُوِيَ عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ، أَنَّ رَجُلَيْنِ اخْتَصَمَا إِلَيْهِ فِي فَرَسٍ بَعْدَ مَا تَبَايَعَا، وَكَانُوا فِي سَفِينَةٍ، فَقَالَ: لَا أَرَاكُمَا افْتَرَقْتُمَا، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا ". وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ وَغَيْرِهِمْ، إِلَى أَنَّ الْفُرْقَةَ بِالْكَلَامِ، وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ. وَهَكَذَا رُوِيَ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وَرُوِي عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ، أَنَّهُ قَالَ: كَيْفَ أَرُدُّ هَذَا؟ وَالْحَدِيثُ فِيهِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَحِيحٌ وَقَوَّى هَذَا الْمَذْهَبَ، وَمَعْنَى قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِلَّا بَيْعَ الْخِيَارِ " مَعْنَاهُ: أَنْ يُخَيِّرَ الْبَائِعُ الْمُشْتَرِيَ بَعْدَ إِيجَابِ الْبَيْعِ، فَإِذَا خَيَّرَهُ فَاخْتَارَ الْبَيْعَ، فَلَيْسَ لَهُ خِيَارٌ بَعْدَ ذَلِكَ فِي فَسْخِ الْبَيْعِ، وَإِنْ لَمْ يَتَفَرَّقَا هَكَذَا فَسَّرَهُ الشَّافِعِيُّ، وَغَيْرُهُ، وَمِمَّا يُقَوِّي قَوْلَ: مَنْ يَقُولُ الْفُرْقَةُ بِالْأَبْدَانِ، لَا بِالْكَلَامِ حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
حکیم بن حزام رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بائع (بیچنے والا) اور مشتری (خریدار) جب تک جدا نہ ہوں ۱؎ دونوں کو بیع کے باقی رکھنے اور فسخ کر دینے کا اختیار ہے، اگر وہ دونوں سچ کہیں اور سامان خوبی اور خرابی واضح کر دیں تو ان کی بیع میں برکت دی جائے گی اور اگر ان دونوں نے عیب کو چھپایا اور جھوٹی باتیں کہیں تو ان کی بیع کی برکت ختم کر دی جائے گی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث صحیح ہے،
۲- اسی طرح ابوبرزہ اسلمی سے بھی مروی ہے کہ دو آدمی ایک گھوڑے کی بیع کرنے کے بعد اس کا مقدمہ لے کر ان کے پاس آئے، وہ لوگ ایک کشتی میں تھے۔ ابوبرزہ نے کہا: میں نہیں سمجھتا کہ تم دونوں جدا ہوئے ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: بائع اور مشتری کو جب تک (مجلس سے) جدا نہ ہوں اختیار ہے،
۳- اہل کوفہ وغیرہم میں سے بعض اہل علم اس طرف گئے ہیں کہ جدائی قول سے ہو گی، یہی سفیان ثوری کا قول ہے، اور اسی طرح مالک بن انس سے بھی مروی ہے،
۴- اور ابن مبارک کا کہنا ہے کہ میں اس مسلک کو کیسے رد کر دوں؟ جب کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وارد حدیث صحیح ہے،
۵- اور انہوں نے اس کو قوی کہا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول «إلا بيع الخيار» کا مطلب یہ ہے کہ بائع مشتری کو بیع کے واجب کرنے کے بعد اختیار دیدے، پھر جب مشتری بیع کو اختیار کر لے تو اس کے بعد اس کو بیع فسخ کرنے کا اختیار نہیں ہو گا، اگرچہ وہ دونوں جدا نہ ہوئے ہوں۔ اسی طرح شافعی وغیرہ نے اس کی تفسیر کی ہے،
۶- اور جو لوگ جسمانی جدائی (تفرق بالابدان) کے قائل ہیں ان کے قول کو عبداللہ بن عمرو کی حدیث تقویت دے رہی ہے جسے وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں (آگے ہی آ رہی ہے)۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 19 (2079)، و22 (2082)، و42 (2108)، و 44 (2110)، و 46 (2114)، صحیح مسلم/البیوع 1 (1532)، سنن ابی داود/ البیوع 53 (3459)، سنن النسائی/البیوع 5 (4462)، (تحفة الأشراف: 3427) و مسند احمد (3/402، 403، 434) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: جدا نہ ہوں سے مراد مجلس سے ادھر ادھر چلے جانا ہے، خود راوی حدیث ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی یہی تفسیر مروی ہے، بعض نے بات چیت ختم کر دینا مراد لیا ہے جو ظاہر کے خلاف ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (1281) ، أحاديث البيوع
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1246  
´بیچنے والا اور خریدار دونوں کو جب تک وہ جدا نہ ہوں بیع کو باقی رکھنے یا فسخ کرنے کا اختیار ہے۔`
حکیم بن حزام رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بائع (بیچنے والا) اور مشتری (خریدار) جب تک جدا نہ ہوں ۱؎ دونوں کو بیع کے باقی رکھنے اور فسخ کر دینے کا اختیار ہے، اگر وہ دونوں سچ کہیں اور سامان خوبی اور خرابی واضح کر دیں تو ان کی بیع میں برکت دی جائے گی اور اگر ان دونوں نے عیب کو چھپایا اور جھوٹی باتیں کہیں تو ان کی بیع کی برکت ختم کر دی جائے گی۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1246]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
جدانہ ہوں سے مراد مجلس سے ادھراُدھرچلے جانا ہے،
خود راوی حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی یہی تفسیرمروی ہے،
بعض نے بات چیت ختم کردینا مراد لیا ہے جوظاہرکے خلاف ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1246   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3459  
´بیچنے اور خریدنے والے کے اختیار کا بیان۔`
حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بائع اور مشتری جب تک جدا نہ ہوں دونوں کو بیع کے باقی رکھنے اور فسخ کر دینے کا اختیار ہے، پھر اگر دونوں سچ کہیں اور خوبی و خرابی دونوں بیان کر دیں تو دونوں کے اس خرید و فروخت میں برکت ہو گی اور اگر ان دونوں نے عیوب کو چھپایا، اور جھوٹی باتیں کہیں تو ان دونوں کی بیع سے برکت ختم کر دی جائے گی۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے سعید بن ابی عروبہ اور حماد نے روایت کیا ہے، لیکن ہمام کی روایت میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بائع و مشتری کو اختیار ہے جب تک کہ دو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3459]
فوائد ومسائل:
فائدہ۔
خلاصہ ان روایات کا یہ ہے۔
کہ خریدار اور مالک ایک دوسرے سے جب تک جدا نہ ہوجایئں۔
مالک اور خریدار کو دونوں کو سودا فسخ کرنے کا اختیار رہتا ہے۔
جدائی سے مراد صرف گفتگو کا اختتام نہیں ہے۔
بلکہ جسمانی طور پر جدائی ہے۔
تاہم اختیار کی مہلت طے ہوجائے۔
تو اور بات ہے۔
پھر اس مہلت تک اختیار باقی رہتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3459