سنن ترمذي
كتاب البيوع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
53. باب مَا جَاءَ فِيمَنْ يَشْتَرِي الْعَبْدَ وَيَسْتَغِلُّهُ ثُمَّ يَجِدُ بِهِ عَيْبًا
باب: غلام خریدے اور اس سے مزدوری کرائے پھر اس میں کوئی عیب پا جائے تو کیا کرے؟
حدیث نمبر: 1285
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، وَأَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ مَخْلَدِ بْنِ خُفَافٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى أَنَّ الْخَرَاجَ بِالضَّمَانِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ..
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا کہ فائدے کا استحقاق ضامن ہونے کی بنیاد پر ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- یہ اور بھی سندوں سے مروی ہے،
۳ - اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ البیوع 73 (3508)، سنن النسائی/البیوع 15 (4495)، سنن ابن ماجہ/التجارات 43 (2242 و2243)، التحفة: 1655)، و مسند احمد (6/49، 208، 237) (حسن)»

قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (2242 - 2243)
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2243  
´غلام کی کمائی اس کے ضامن مالک سے جڑی ہوئی ہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ایک غلام خریدا، پھر اس سے مزدوری کرائی، بعد میں اسے اس میں کوئی عیب نظر آیا، اسے بیچنے والے کو واپس کر دیا، بیچنے والے نے کہا: اللہ کے رسول! اس نے میرے غلام سے مزدوری کرائی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ فائدہ اسے ضمانت کی وجہ سے ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2243]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اگر کوئی آمدنی دینے والی چیز خریدی جائے اور پھر واپس کر دی جائے تو جتنے دن وہ چیز خریدار کے پاس رہی ہے اور اس نے اس سے فائدہ اٹھایا ہے واپسی کے وقت اس فائدے کا کوئی معاوضہ ادا نہیں کیا جائے گا۔
اس قانون سے صرف دودھ دینے والا جانور مستثنیٰ ہے جس کو واپس کرتے وقت ایک صاع کھجوریں ساتھ دی جائیں گی۔

(2)
اگر خریدار کے پاس جانور مر جائے یا کوئی دوسری چیز خراب ہو جائے یا تباہ ہو جائے تو یہ نقصان خریدار برداشت کرے گا، اس لیے اگر خریدار کو اس سے کوئی آمدنی ہوتی ہے تو وہ بھی خود رکھے گا، خریدی ہوئی چیز واپس کرتے وقت اس سے حاصل ہونے والی آمدنی بیچنے والے کو واپس نہیں کرے گا۔

(3)
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ یہی روایت سنن ابی داؤد (3510)
میں بھی ہے، وہاں ہمارے محقق نے اس کی بابت یوں لکھا ہے کہ یہ روایت سنداً ضعیف ہے البتہ سابقہ روایت (3509)
اس سے کفایت کرتی ہے لہٰذا مذکورہ روایت ہمارے فاضل محقق کے نزدیک بھی سنداً ضعیف ہونے باوجود معناً صحیح اور قابل عمل ہے، علاوہ ازیں مذکورہ روایت کو دیگر محققین نے حسن قرار دیا ہے۔
-دیکھیے: (صحيح سنن ابن ماجه للألباني، رقم: 1836، والموسوعة الحديثة مسندالإمام أحمد: 40/ 272، 273)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2243   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3508  
´ایک شخص نے غلام خریدا اور اسے کام پر لگایا پھر اس میں عیب کا پتہ چلا تو اس کی اجرت خریدار کے ذمہ ہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خراج ضمان سے جڑا ہوا ہے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3508]
فوائد ومسائل:
توضیح۔
غلام نے جو کچھ کمایا وہ خریدار کا ہے۔
اس مدت میں اگر اس کے کسی عیب پر مطلع ہوا اور اسے واپس کیا تو صرف غلام واپس ہوگا۔
اس کی کمائی نہیں۔
کیونکہ بالفرض اگران دنوں میں غلام مرجاتا۔
تو یہ نقصان خریدار کا ہی ہوتا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3508