سنن ترمذي
كتاب الأحكام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے احکامات اور فیصلے
22. باب مَا جَاءَ أَنَّ الْوَالِدَ يَأْخُذُ مِنْ مَالِ وَلَدِهِ
باب: باپ بیٹے کے مال میں سے لے سکتا ہے۔
حدیث نمبر: 1358
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ , حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ , حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ , عَنْ عَمَّتِهِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ أَطْيَبَ مَا أَكَلْتُمْ مِنْ كَسْبِكُمْ , وَإِنَّ أَوْلَادَكُمْ مِنْ كَسْبِكُمْ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ جَابِرٍ , وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ , وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا , عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ , عَنْ أُمِّهِ , عَنْ عَائِشَةَ , وَأَكْثَرُهُمْ قَالُوا: عَنْ عَمَّتِهِ , عَنْ عَائِشَةَ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ , قَالُوا: إِنَّ يَدَ الْوَالِدِ مَبْسُوطَةٌ فِي مَالِ وَلَدِهِ , يَأْخُذُ مَا شَاءَ , وَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا يَأْخُذُ مِنْ مَالِهِ إِلَّا عِنْدَ الْحَاجَةِ إِلَيْهِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے پاکیزہ چیز جس کو تم کھاتے ہو تمہاری اپنی کمائی ہے اور تمہاری اولاد بھی تمہاری کمائی میں سے ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- بعض لوگوں نے عمارہ بن عمیر سے اور عمارہ نے اپنی ماں سے اور ان کی ماں نے عائشہ رضی الله عنہا سے روایت کی ہے، لیکن اکثر راویوں نے «عن أمّه» کے بجائے «عن عمته» کہا ہے یعنی عمارہ بن عمیر نے اپنی پھوپھی سے اور انہوں نے عائشہ رضی الله عنہا سے روایت کی ہے،
۳- اس باب میں جابر اور عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۴- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ باپ کو بیٹے کے مال میں کلی اختیار ہے وہ جتنا چاہے لے سکتا ہے،
۵- اور بعض کہتے ہیں کہ باپ اپنے بیٹے کے مال سے بوقت ضرورت ہی لے سکتا ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ البیوع 79 (3528)، سنن النسائی/البیوع 1 (4454)، سنن ابن ماجہ/التجارات 1 (2137)، (تحفة الأشراف: 17992)، و مسند احمد (6/31، 42، 127، 162، 193، 220)، سنن الدارمی/البیوع 6 (2579) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہ سے اسی معنی کی ایک حدیث مروی ہے، «أَنْتَ وَ مَالُكَ لأَبِيْكَ» یعنی تم اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے (سنن ابی داود رقم: ۳۵۳۰/صحیح) اس میں بھی عموم ہے، ضرورت کی قید نہیں ہے، اور عائشہ رضی الله عنہا کی اس حدیث میں سنن أبی داود میں (برقم: ۳۵۲۹) جو «إذا احتجتم» جب تم ضرورت مند ہو کی زیادتی ہے وہ بقول ابوداؤد منکر ہے، لیکن لڑکے کی وفات پر (پوتے کی موجودگی میں) باپ کو صرف چھٹا حصہ ملتا ہے، اس سے حدیث کی تخصیص ہو جاتی ہے۔ یعنی بیٹے کا کل مال باپ کی ملکیت نہیں، صرف بقدر ضرورت ہی لے سکتا ہے۔ «واللہ اعلم» ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2137)
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2137  
´روزی کمانے کی ترغیب۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی کا سب سے عمدہ کھانا وہ ہے جو اس کی اپنی کمائی کا ہو، اور اس کی اولاد بھی اس کی کمائی ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2137]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اسلام رہبانیت کا دین نہیں اور نہ وہ ترک دنیا کی دعوت دیتا ہے بلکہ دنیا میں اس طریقے سے رہنا سکھاتا ہے جس میں ایثار، خیر خواہی اور تعاون کو پیش نظر رکھا جائے۔
دنیا میں امن و مان اس طرح پیدا ہوا سکتا ہے۔

(2)
  محنت سے حاصل ہونے والی کمائی حلال کمائی ہے بشرطیکہ اس میں شرعی احکام کو ملحوظ رکھا گیا ہو۔
یہ محنت جسمانی بھی ہو سکتی ہے، کوئی فنی مہارت یا دستکاری بھی ہو سکتی ہے، ذہنی اور دماغی بھی ہو سکتی ہے۔

(3)
  انسان اپنے پچوں کی پرورش کرتا ہے اور ان پر خرچ کرتا ہے لہٰذا اولاد کا فرض ہے کہ والدین کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرے۔

(4)
والدین اپنی اولاد سے حسب ضرورت مال لے سکتے ہیں تاہم انہیں چاہیے کہ اولاد کی جائز ضرویات کو نظر انداز نہ کریں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2137   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1358  
´باپ بیٹے کے مال میں سے لے سکتا ہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے پاکیزہ چیز جس کو تم کھاتے ہو تمہاری اپنی کمائی ہے اور تمہاری اولاد بھی تمہاری کمائی میں سے ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1358]
اردو حاشہ: 1؎:
عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے اسی معنی کی ایک حدیث مروی ہے،
'أَنْتَ وَ مَالُكَ لأَبِيْكَ' (یعنی تم اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے) (سنن ابی داود رقم: 3530/صحیح) اس میں بھی عموم ہے،
ضرورت کی قید نہیں ہے،
اور عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث میں سنن أبی داود میں (برقم: 3529) جو 'إذا احتجتم' (جب تم ضرورت مند ہو) کی 'زیادتی' ہے وہ بقول ابوداود 'منکر' ہے،
لیکن لڑکے کی وفات پر (پوتا کی موجودگی میں) باپ کو صرف چھٹا حصہ ملتا ہے،
اس سے حدیث کی تخصیص ہوجاتی ہے۔
یعنی بیٹے کا کل مال باپ کی ملکیت نہیں،
صرف بقدر ضرورت ہی لے سکتا ہے۔
واللہ اعلم۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1358