سنن ترمذي
كتاب الأحكام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے احکامات اور فیصلے
33. باب مَا جَاءَ إِذَا حُدَّتِ الْحُدُودُ وَوَقَعَتِ السِّهَامُ فَلاَ شُفْعَةَ
باب: جب حد بندی ہو جائے اور حصے تقسیم ہو جائیں تو شفعہ نہیں۔
حدیث نمبر: 1370
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ , أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ , عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا وَقَعَتِ الْحُدُودُ , وَصُرِّفَتِ الطُّرُقُ , فَلَا شُفْعَةَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَقَدْ رَوَاهُ بَعْضُهُمْ مُرْسَلًا، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ , وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ , وَبِهِ يَقُولُ بَعْضُ فُقَهَاءِ التَّابِعِينَ , مِثْلَ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ , وَغَيْرِهِ , وَهُوَ قَوْلُ: أَهْلِ الْمَدِينَةِ مِنْهُمْ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيُّ , وَرَبِيعَةُ بْنُ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ , وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ , وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ , وَأَحْمَدُ , وَإِسْحَاق: لَا يَرَوْنَ الشُّفْعَةَ إِلَّا لِلْخَلِيطِ , وَلَا يَرَوْنَ لِلْجَارِ شُفْعَةً إِذَا لَمْ يَكُنْ خَلِيطًا , وَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ: الشُّفْعَةُ لِلْجَارِ , وَاحْتَجُّوا بِالْحَدِيثِ الْمَرْفُوعِ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " جَارُ الدَّارِ أَحَقُّ بِالدَّارِ "، وَقَالَ: " الْجَارُ أَحَقُّ بِسَقَبِهِ " , وَهُوَ قَوْلُ: الثَّوْرِيِّ , وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَأَهْلِ الْكُوفَةِ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب حد بندی ہو جائے اور راستے الگ الگ کر دیے جائیں تو شفعہ نہیں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اسے بعض لوگوں نے ابوسلمہ سے اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلاً روایت کیا ہے،
۳- صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم کا جن میں عمر بن خطاب اور عثمان بن عفان بھی شامل ہیں اسی پر عمل ہے اور بعض تابعین فقہاء جیسے عمر بن عبدالعزیز وغیرہ بھی اسی کے قائل ہیں۔ اور یہی اہل مدینہ کا بھی قول ہے، جن میں یحییٰ بن سعید انصاری، ربیعہ بن ابوعبدالرحمٰن اور مالک بن انس شامل ہیں، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں، یہ لوگ صرف ساجھی دار کے لیے ہی حق شفعہ کے قائل ہیں۔ اور جب پڑوسی ساجھی دار نہ ہو تو اس کے لیے حق شفعہ کے قائل نہیں۔ صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ پڑوسی کے لیے بھی شفعہ ہے اور ان لوگوں نے مرفوع حدیث سے استدلال کیا ہے جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: گھر کا پڑوسی گھر کا زیادہ حقدار ہے ۲؎، نیز فرماتے ہیں: پڑوسی اپنے سے لگی ہوئی زمین یا مکان کا زیادہ حقدار ہے اور یہی ثوری، ابن مبارک اور اہل کوفہ کا بھی قول ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 96 (2213)، و97 (2214)، والشفعة 1 (2257)، والشرکة 8 (2495)، والحیل 14 (6976)، سنن ابی داود/ البیوع 75 (3514)، سنن ابن ماجہ/الشفعة 3 (2497)، (تحفة الأشراف: 3153)، و مسند احمد (3/296) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ شفعہ صرف اس جائیداد میں ہے جو مشترک ملکیت میں ہو، محض پڑوسی ہونا حق شفعہ کے اثبات کے لیے کافی نہیں، یہی جمہور کا مسلک ہے اور یہی حجت و صواب سے قریب تر بھی ہے، حنفیہ نے اس کی مخالفت کی ہے ان کا کہنا ہے کہ شفعہ جس طرح مشترک جائیداد میں ہے اسی طرح پڑوس کی بنیاد پر بھی شفعہ جائز ہے، ان کی دلیل حدیث نبوی «جار الدار أحق بالدار» ہے۔
۲؎: جمہور اس حدیث کا جواب یہ دیتے ہیں کہ اس حدیث میں مراد شریک (ساجھی) ہے، مطلق پڑوسی کا تو کبھی راستہ الگ بھی ہوتا ہے، جب کہ راستہ الگ ہو جانے پر حق شفعہ نہیں ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3499)
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1370  
´جب حد بندی ہو جائے اور حصے تقسیم ہو جائیں تو شفعہ نہیں۔`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب حد بندی ہو جائے اور راستے الگ الگ کر دیے جائیں تو شفعہ نہیں ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1370]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ شفعہ صرف اس جائداد میں ہے جو مشترک ملکیت میں ہو،
محض پڑوسی ہو نا حق شفعہ کے اثبات کے لیے کافی نہیں،
یہی جمہور کا مسلک ہے اور یہی حجت وصواب سے قریب تربھی ہے،
حنفیہ نے اس کی مخالفت کی ہے ان کا کہنا ہے کہ شفعہ جس طرح مشترک جائیداد میں ہے اسی طرح پڑوس کی بنیاد پربھی شفعہ جائزہے،
ان کی دلیل حدیث نبوی جار الدار أحق بالدار ہے۔

2؎:
جمہوراس حدیث کا جواب یہ دیتے ہیں کہ اس حدیث میں مراد شریک (ساجھی) ہے،
مطلق پڑوسی کا تو کبھی راستہ الگ بھی ہوتا ہے،
جب کہ راستہ الگ ہوجانے پر حق شفعہ نہیں ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1370