سنن ترمذي
كتاب الأحكام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے احکامات اور فیصلے
35. باب مَا جَاءَ فِي اللُّقَطَةِ وَضَالَّةِ الإِبِلِ وَالْغَنَمِ
باب: گری پڑی چیز اور گمشدہ اونٹ اور بکری کا بیان۔
حدیث نمبر: 1374
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ , حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ , وَيَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ , عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ , عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ , قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ زَيْدِ بْنِ صُوحَانَ , وَسَلْمَانَ بْنِ رَبِيعَةَ , فَوَجَدْتُ سَوْطًا , قَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ فِي حَدِيثِهِ: فَالْتَقَطْتُ سَوْطًا , فَأَخَذْتُهُ قَالَا: دَعْهُ , فَقُلْتُ: لَا أَدَعُهُ تَأْكُلْهُ السِّبَاعُ , لَآخُذَنَّهُ فَلَأَسْتَمْتِعَنَّ بِهِ , فَقَدِمْتُ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ وَحَدَّثْتُهُ الْحَدِيثَ، فقال: أحسنت وجدت على عهد رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صُرَّةً فِيهَا مِائَةُ دِينَارٍ، قَالَ: فَأَتَيْتُهُ بِهَا , فَقَالَ لِي: " عَرِّفْهَا حَوْلًا " , فَعَرَّفْتُهَا حَوْلًا , فَمَا أَجِدُ مَنْ يَعْرِفُهَا , ثُمَّ أَتَيْتُهُ بِهَا , فَقَالَ: " عَرِّفْهَا حَوْلًا آخَرَ " , فَعَرَّفْتُهَا , ثُمَّ أَتَيْتُهُ بِهَا , فَقَالَ: " عَرِّفْهَا حَوْلًا آخَرَ " , وَقَالَ: " أَحْصِ عِدَّتَهَا , وَوِعَاءَهَا , وَوِكَاءَهَا , فَإِنْ جَاءَ طَالِبُهَا فَأَخْبَرَكَ بِعِدَّتِهَا , وَوِعَائِهَا , وَوِكَائِهَا , فَادْفَعْهَا إِلَيْهِ , وَإِلَّا فَاسْتَمْتِعْ بِهَا ". قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ میں زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ کے ساتھ نکلا تو مجھے (راستے میں) ایک کوڑا پڑا ملا - ابن نمیر کی روایت میں ہے کہ میں نے پڑا ہوا ایک کوڑا پایا - تو میں نے اسے اٹھا لیا تو ان دونوں نے کہا: اسے رہنے دو، (نہ اٹھاؤ) میں نے کہا: میں اسے نہیں چھوڑ سکتا کہ اسے درندے کھا جائیں، میں اسے ضرور اٹھاؤں گا، اور اس سے فائدہ اٹھاؤں گا۔ پھر میں ابی بن کعب کے پاس آیا، اور ان سے اس کے بارے میں پوچھا اور ان سے پوری بات بیان کی تو انہوں نے کہا: تم نے اچھا کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں، میں نے ایک تھیلی پائی جس میں سو دینار تھے، اسے لے کر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ نے مجھ سے فرمایا: ایک سال تک اس کی پہچان کراؤ، میں نے ایک سال تک اس کی پہچان کرائی لیکن مجھے کوئی نہیں ملا جو اسے پہچانتا، پھر میں اسے لے کر آپ کے پاس آیا۔ آپ نے فرمایا: ایک سال تک اور اس کی پہچان کراؤ، میں نے اس کی پہچان کرائی، پھر اسے لے کر آپ کے پاس آیا۔ تو آپ نے فرمایا: ایک سال تک اور اس کی پہچان کراؤ ۱؎، اور فرمایا: اس کی گنتی کر لو، اس کی تھیلی اور اس کے سربند کو خوب اچھی طرح پہچان لو اگر اسے تلاش کرنے والا آئے اور اس کی تعداد، اس کی تھیلی اور اس کے سربند کے بارے میں بتائے تو اسے دے دو ورنہ تم اسے اپنے کام میں لاؤ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/اللقطة 1 (2426)، صحیح مسلم/اللقطة 1 (1723)، سنن ابی داود/ اللقطة 1 (1701)، سنن ابن ماجہ/اللقطة 2 (2506)، و مسند احمد (5/126) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یعنی تین سال تک پہچان کرانے کا حکم دیا، اس کی تاویل پچھلی حدیث کے حاشیہ میں دیکھئیے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2506)
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2506  
´راستہ سے اٹھائی ہوئی گری پڑی چیز کا بیان۔`
سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ میں زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ کے ساتھ نکلا، جب ہم عذیب پہنچے تو میں نے وہاں ایک کوڑا پڑا ہوا پایا، ان دونوں نے مجھ سے کہا: اس کو اسی جگہ ڈال دو، لیکن میں نے ان کا کہا نہ مانا، پھر جب ہم مدینہ پہنچے، تو میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اور ان سے اس کا تذکرہ کیا، تو انہوں نے کہا: تم نے ٹھیک کیا، میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں سو دینار پڑے پائے تھے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سال بھر تک اس کے مالک کا پتہ کرتے رہو، ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب اللقطة/حدیث: 2506]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
عام قیمتی چیز کےلیےاعلان کی مدت ایک سال ہے جب کہ زیادہ قیمتی چیز کا اس سے زیادہ مدت تک اعلان کرنا بہتر ہے۔

(2)
معمولی چیز جس کے گم ہونے کی زیادہ پروا نہیں کی جاتی اس کا اعلان نہ کرنا درست ہے۔

(3)
اعلان ایسے متعدد مقامات پرکرنا چاہیے جہاں سے توقع ہو کہ اگر مالک تلاش میں وہاں آیا ہوا ہو تو خود سن لے گا یا اگر اس نے آسں پاس کے لوگوں سے پوچھا ہوگا توان میں سے کوئی نہ کوئی سن کر بتا دے گا کہ فلاں شخص کا مال گم ہوا ہے۔

(4)
آج کل اخبار اور ریڈیو میں اعلان کرنا بھی درست ہے۔
جب مالک آئے تواس سے اعلان کا خرچ وصول کرکے اس کی گم شدہ رقم وغیرہ اسے دے دے۔

(5)
ایک سال کےاعلان کے باوجود اگر مالک نہ آیا تو یہ اعلان کافی ہے اور رقم کو استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن اگر بعد میں کبھی مالک آ جائے تو بھی اسے اتنی رقم ادا کرنی چاہیے جیسا کہ آئندہ حدیث میں صراحت ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2506   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1374  
´گری پڑی چیز اور گمشدہ اونٹ اور بکری کا بیان۔`
سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ میں زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ کے ساتھ نکلا تو مجھے (راستے میں) ایک کوڑا پڑا ملا - ابن نمیر کی روایت میں ہے کہ میں نے پڑا ہوا ایک کوڑا پایا - تو میں نے اسے اٹھا لیا تو ان دونوں نے کہا: اسے رہنے دو، (نہ اٹھاؤ) میں نے کہا: میں اسے نہیں چھوڑ سکتا کہ اسے درندے کھا جائیں، میں اسے ضرور اٹھاؤں گا، اور اس سے فائدہ اٹھاؤں گا۔ پھر میں ابی بن کعب کے پاس آیا، اور ان سے اس کے بارے میں پوچھا اور ان سے پوری بات بیان کی تو انہوں نے کہا: تم نے اچھا کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں، میں نے ایک تھیلی پ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1374]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی تین سال تک پہچان کرانے کا حکم دیا،
اس کی تاویل پچھلی حدیث کے حاشہ میں دیکھیے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1374