سنن ترمذي
كتاب الأحكام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے احکامات اور فیصلے
36. باب فِي الْوَقْفِ
باب: وقف کا بیان۔
حدیث نمبر: 1375
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ , أَنْبَأَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ , عَنْ ابْنِ عَوْنٍ , عَنْ نَافِعٍ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , قَالَ: أَصَابَ عُمَرُ أَرْضًا بِخَيْبَرَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَصَبْتُ مَالًا بِخَيْبَرَ لَمْ أُصِبْ مَالًا قَطُّ , أَنْفَسَ عِنْدِي مِنْهُ , فَمَا تَأْمُرُنِي , قَالَ: " إِنْ شِئْتَ حَبَسْتَ أَصْلَهَا , وَتَصَدَّقْتَ بِهَا " , فَتَصَدَّقَ بِهَا عُمَرُ , أَنَّهَا لَا يُبَاعُ أَصْلُهَا , وَلَا يُوهَبُ , وَلَا يُورَثُ , تَصَدَّقَ بِهَا فِي الْفُقَرَاءِ , وَالْقُرْبَى , وَالرِّقَابِ , وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ , وَابْنِ السَّبِيلِ , وَالضَّيْفِ , لَا جُنَاحَ عَلَى مَنْ وَلِيَهَا أَنْ يَأْكُلَ مِنْهَا بِالْمَعْرُوفِ , أَوْ يُطْعِمَ صَدِيقًا غَيْرَ مُتَمَوِّلٍ فِيهِ , قَالَ: فَذَكَرْتُهُ لِمُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ , فَقَالَ غَيْرَ مُتَأَثِّلٍ مَالًا , قَالَ ابْنُ عَوْنٍ: فَحَدَّثَنِي بِهِ رَجُلٌ آخَرُ , أَنَّهُ قَرَأَهَا فِي قِطْعَةِ أَدِيمٍ أَحْمَرَ غَيْرَ مُتَأَثِّلٍ مَالًا , قَالَ إِسْمَاعِيلُ , وَأَنَا قَرَأْتُهَا عِنْدَ ابْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ , فَكَانَ فِيهِ غَيْرَ مُتَأَثِّلٍ مَالًا , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ , لَا نَعْلَمُ بَيْنَ الْمُتَقَدِّمِينَ مِنْهُمْ فِي ذَلِكَ اخْتِلَافًا فِي إِجَازَةِ وَقْفِ الْأَرَضِينَ وَغَيْرِ ذَلِكَ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ عمر رضی الله عنہ کو خیبر میں (مال غنیمت سے) کچھ زمین ملی، تو انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! خیبر میں مجھے مال ملا ہے اس سے زیادہ عمدہ مال مجھے کبھی نہیں ملا۔ (اس کے بارے میں) آپ مجھے کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: اگر چاہو تو اس کی اصل روک لو اور اسے (پیداوار کو) صدقہ کر دو، تو عمر رضی الله عنہ نے اسے اس طرح سے صدقہ کیا کہ اصل زمین نہ بیچی جائے، نہ ہبہ کی جائے، اور نہ کسی کو وراثت میں دی جائے ۱؎، اور اسے فقیروں میں، رشتہ داروں میں، غلام آزاد کرنے میں، اللہ کے راستے (جہاد) میں، مسافروں میں اور مہمانوں میں خرچ کیا جائے۔ اور جو اس کا والی (نگراں) ہو اس کے لیے اس میں سے معروف طریقے سے کھانے اور دوست کو کھلانے میں کوئی حرج نہیں ہے، جبکہ وہ اس میں سے ذخیرہ اندوزی کرنے والا نہ ہو۔ ابن عون کہتے ہیں: میں نے اسے محمد بن سیرین سے بیان کیا تو انہوں نے «غير متمول فيه» کے بجائے «غير متأثل مالا» کہا۔ ابن عون کہتے ہیں: مجھ سے اسے ایک اور آدمی نے بیان کیا ہے کہ اس نے اس وقف نامے کو پڑھا تھا جو ایک لال چمڑے پر تحریر تھا اور اس میں بھی «غير متأثل مالا» کے الفاظ تھے۔ اسماعیل کہتے ہیں: میں نے اس وقف نامے کو عبیداللہ بن عمر کے بیٹے کے پاس پڑھا، اس میں بھی «غير متأثل مالا» کے الفاظ تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ متقدمین میں سے ہم کسی کو نہیں جانتے ہیں جس نے زمین وغیرہ کو وقف کرنے میں اختلاف کیا ہو۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الشروط 19 (2737)، والوصایا 22 (2764)، و 28 (2772)، و29 (2773)، و32 (2777)، صحیح مسلم/الوصایا 4 (1632)، سنن ابی داود/ الوصایا 13 (2878)، سنن النسائی/الإحباس 2 (3627)، سنن ابن ماجہ/الصدقات 4 (2396)، (تحفة الأشراف: 7742)، و مسند احمد (2/55، 125) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ جو چیز وقف کر دی گئی ہو وہ نہ بیچی جا سکتی ہے اور نہ اسے ہبہ اور وراثت میں دیا جا سکتا ہے، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ وقف کے فروخت کو جائز سمجھتے ہیں، ان کے شاگرد امام یوسف فرماتے ہیں کہ امام صاحب کو اگر یہ حدیث مل گئی ہوتی تو وہ اپنی رائے سے رجوع فرما لیتے (دیکھئیے: فتح الباری کتاب الوصایا، باب ۲۹ (۲۷۷۳)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2396)
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2397  
´جس نے وقف کیا اس کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! خیبر کے جو سو حصے مجھے ملے ہیں ان سے بہتر مال مجھے کبھی نہیں ملا، میں چاہتا ہوں کہ ان کو صدقہ کر دوں؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اصل زمین کو رہنے دو، اور اس کے پھلوں کو اللہ کی راہ میں خیرات کر دو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الصدقات/حدیث: 2397]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
وقف شرعاً درست ہے۔

(2)
وقف کسی کی ملکیت نہیں ہوتا البتہ وقف کرنے والا اس کا انتظام خود کرنے کا حق رکھتا ہے۔

(3)
وقف سےحاصل ہونے والی آمدنی میں سے وقف قائم رکھنے کےضروری اخراجات نکال کرباقی مال نیکی کےان کاموں میں خرچ ہوگا جن کےلیے وقف کیاگیا ہے۔

(4)
وقف کا منتظم اپنی خدمات کےعوض مناسب تنخواہ لے سکتا ہے لیکن یہ تنخواہ بہت زیادہ نہ ہو۔

(5)
مال نہ کمانے کا مطلب یہ ہے کہ اسے اپنے لیے ذریعہ آمدنی نہ بنا لے اورجائز حد سے زیادہ مالی فوائد حاصل نہ کرے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2397   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 786  
´وقف کا بیان`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ (میرے والد) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو خیبر کے علاقہ میں زمین ملی تھی۔ (میرے والد) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مشورہ طلب کرنے کیلئے حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے خیبر میں کچھ زمین حاصل ہوئی ہے ایسی نفیس و قیمتی کہ اس سے پہلے کبھی بھی ایسی زمین مجھے نہیں ملی۔ میں اسے صدقہ کرنا چاہتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر چاہو تو اصل کو اپنے پاس روک لو اور اس کی پیداوار صدقہ کر دو۔ راوی کا بیان ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس زمین کو فقیروں، قرابت داروں، غلاموں کو آزاد کرنے میں اور راہ خدا میں، راہ چلتے مسافروں اور مہمانوں کی مہمان نوازی کیلئے وقف کر دیا اور وصیت بھی کر دی کہ اس کا منتظم و نگہبان معروف طریقہ کے مطابق خود بھی کھا سکتا ہے اور احباب و رفقاء کو بھی کھلا سکتا ہے۔ مگر مال کو ذخیرہ بنا کر نہ رکھے۔ (بخاری و مسلم) یہ الفاظ مسلم کے ہیں اور بخاری کی روایت میں ہے کہ اس کے اصل کو صدقہ کر دیا (یعنی وقف کر دیا) جو نہ فروخت کیا جائے گا اور نہ ھبہ کیا جائے گا لیکن اس کی پیداوار، راہ خدا میں خرچ کی جائے گی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 786»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الشروط، باب الشروط في الوقف، حديث:2737، ومسلم، الوصية، باب الوقف، حديث:1632.»
تشریح:
اس حدیث میں وقف شدہ چیز کو فروخت کرنے اور ہبہ کرنے سے منع فرمایا گیا ہے‘ یعنی جو چیز وقف کر دی جائے اسے فروخت نہیں کیا جا سکتا اور نہ اسے ہبہ کیا جا سکتا ہے۔
حدیث سے تو یہی معلوم ہوتا ہے مگر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ وقف شدہ چیز کے فروخت کرنے کو جائز سمجھتے ہیں۔
ان کے شاگرد رشید امام ابویوسف رحمہ اللہ کا قول ہے کہ اگر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو یہ حدیث پہنچ جاتی تو وہ اپنی رائے سے رجوع کر لیتے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 786   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1375  
´وقف کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ عمر رضی الله عنہ کو خیبر میں (مال غنیمت سے) کچھ زمین ملی، تو انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! خیبر میں مجھے مال ملا ہے اس سے زیادہ عمدہ مال مجھے کبھی نہیں ملا۔ (اس کے بارے میں) آپ مجھے کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: اگر چاہو تو اس کی اصل روک لو اور اسے (پیداوار کو) صدقہ کر دو، تو عمر رضی الله عنہ نے اسے اس طرح سے صدقہ کیا کہ اصل زمین نہ بیچی جائے، نہ ہبہ کی جائے، اور نہ کسی کو وراثت میں دی جائے ۱؎، اور اسے فقیروں میں، رشتہ داروں میں، غلام آزاد کرنے میں، اللہ کے راستے (جہاد) میں، مسافروں میں اور مہمانوں میں خ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1375]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس سے معلوم ہوا کہ جو چیزوقف کردی گئی ہو وہ نہ بیچی جاسکتی ہے اورنہ اسے ہبہ اوروراثت میں دیا جا سکتا ہے،
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ وقف کے فروخت کو جائزسمجھتے ہیں،
ان کے شاگرد امام یوسف فرماتے ہیں کہ امام صاحب کو اگریہ حدیث مل گئی ہوتی تو وہ اپنی رائے سے رجوع فرما لیتے۔
(دیکھیے:
فتح الباری کتاب الوصایا،
باب 29 (2773)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1375